5 194

کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے؟

گزشتہ روز ایک سیاسی رہنماء کی گرفتاری کے بعد لاہور میں ایک احتجاجی جلوس کی جو جھلکیاں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی دیکھی گئیں ان میں لگنے والے نعرے انتہائی قابل افسوس کے زمرے میں ہی شمار کئے جا سکتے ہیں۔ اس منظرنامے نے نصف صدی سے بھی آگے لے جا کر وہ منظر یاد دلا دیا ہے جب ہمارے ازلی دشمن بھارت نے ہم پر جارحیت تھوپ کر رات کے اندھیرے میں ہم پر شب خون مارنے کی غلطی کی تھی مگر ہماری بہادر افواج نے نہایت جرأت کیساتھ اس کی اس مکارانہ چال کو اپنی خون رنگ قربانیوں سے ناکام بنا دیا تھا۔ یہ ستمبر 1965ء یعنی 55برس پہلے کا بھارتی افواج کا اچانک رات کے اندھیرے میں لاہور پر حملہ کر کے بزعم خویش پاکستان کو خدا نخواستہ نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی سازش تھی مگر جس طرح اس مکارانہ چالبازی کو ہماری جری افواج نے پسپا کیا وہ تاریخ ہے، تاہم اس کے بعد ملک بھر میں بھارت کے اس بزدلانہ حملے کیخلاف عوام نے احتجاجی ریلیاں نکالنا شروع کر دیں تو ان جلوسوں اور ریلیوں کا ایک ہی بیانیہ ہوتا تھا یعنی لوگ سڑکوں پر ان جلوسوں کے دوران شاستری کتا ہائے ہائے کے نعرے لگاتے دیکھے جاتے، پشاور کی ایک اسی قسم کی ریلی کے دوران بعض منچلوں نے کہیں سے کتے کا ایک پلا ڈھونڈ کر اسے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی طرح کی ترچھی ٹوپی (کاغذ کی بنی ہوئی) پہنا دی اور اس کتے کے بچے کو ایک کرسی پر بٹھا کر بھارت کیخلاف نعرے بازی کا سلسلہ شروع کیا، مزے کی بات یہ ہے کہ وہ کتے کا بچہ کرسی پر بیٹھا ہوا حیرت سے ادھر اُدھر دیکھتا جا رہا تھا، مگر نہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی نہ احتجاج کیا، یہ جلوس جہاں سے گزرتا لوگ اس منظر کو دیکھ کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ اس کے بعد ہمارے ہاں یہ ”کتا ہائے ہائے” کا بیانیہ گویا سیاسی جلوسوں کا خاصا بن گیا اور ایک سابق آمر کیخلاف جب اس سے تنگ آئے ہوئے عوام نے ملک بھر میں احتجاجی ریلیوں کے دوران اس نوع کے نعرے لگانا شروع کر دئیے تھے تو اس نے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ بعض روایات کے مطابق (جن کے درست ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی یعنی مفروضہ بھی ہوسکتا ہے) اس لئے بھی کیا کہ ایک دن خود اس کے نواسوں نے کھیلتے ہوئے یہی نعرے لگائے چونکہ وہ چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور انہیں ان نعروں کی حقیقت کا معلوم نہیں تھا اور معصومیت میں یہ سب کچھ کر رہے تھے اس لئے موصوف کو تب پتہ چلا کہ ملک کے سیاسی حالات کس ڈگر پر جارہے ہیں اور بقول شخصے کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا والی صورتحال اس پر واضح ہوگئی، اس وجہ سے اس نے حالات کی سنگینی کو بھانپ کر اقتدار سے علیحدگی ہی میں عافیت جانی، یعنی صورتحال کو اس نوریٹرن کے مقام پر جانے سے پہلے ہی دی اینڈ کر دیا، جہاں پھر انقلاب فرانس جیسے واقعات تاریخ کے صفحات پر عبرت کا سامان بن کر محفوظ ہو جاتے ہیں اور موصوف کے اس دانشمندانہ اور دوراندیشانہ فیصلے کا نتیجہ تھا کہ بہت مدت بعد ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنے جانے والے ٹرکوں کے پیچھے اس کی پینٹ شدہ تصاویر کے نیچے تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد کے نعرے لکھے ہوئے دیکھے جانے لگے کیونکہ بعد میں آنے والوں نے اس ملک کا جو حشر کیا وہ بھی سب کے سامنے تھا، یعنی بقول محسن نقوی
سب جرم مری ذات سے منسوب ہیں محسن
کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے
ازاں بعد یہ اور اس قسم کے دیگر بیانیوں نے سیاسی فضا کو مکدر ہی نہیں اس قدر مسموم کر دیا کہ ہمارے نعرے باز سیاسی جھتوں نے خواتین رہنماؤں تک کو نہیں بخشا اور ایسے ایسے سیاسی نعرے ایجاد کئے کہ الحفیظ والاماں، مخالف سیاسی ورکروں نے کسی کو بھی معاف نہیں کیا۔ اس صورتحال کی حوصلہ افزائی سیاسی قیادت نے نہ کی ہوتی اور انہیں یہ احساس ہوتا کہ آج ان کی ”قیادت اور سرپرستی” میں ان کے ورکرز اگر ان کے مخالفین کے گھروں تک کے اندر نفرت انگیز نعرہ بازی کے ذریعے جھانکنے اور ”چادراور چاردیواری” کو فکری انداز میں پامال کر رہے ہیں تو یہ آگ آنے والے دنوں میں خود ان کے آنگنوں میں بھی سلگ کر بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل ہو کر سب کچھ بھسم کر سکتی ہے یہاں مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
درغنیم جلانے کو جو لگائی تھی
وہ آگ پھیل گئی میرے آشیانے تک
گزشتہ روز جو نعرے لگے اور جس نے پاک بھارت جنگ ستمبر کی یاد دلا دی، ان نعروں پر افسوس تو بہت معمولی بات ہے، اس صورتحال کی مذمت کیلئے بھی الفاظ نہیں مل رہے کیونکہ اس نعرے بازی سے صرف پاکستان کے دشمنوں ہی کو خوشی ہوسکتی ہے اور یقیناً اس کے بعد صف دشمناں میں جشن کا سماں ہوگا، اگر ہم اپنی سیاست کو جوش کے ہنگام ہوش کے دانشمندانہ سرحدوں کے اندر ہی رہنے دیں تو کسی بھی پچھتاوے سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بقول نازمظفر آبادی
اگر نہ روکا گیا اب ندی کے دھارے کو
تو آتی جائیں گی پھر بستیاں کٹاؤ میں

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات