4 202

اقتدار کی نہیں ملک کی فکر کی جائے

پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنی حکومتوں کا آغاز طویل اور تفصیلی منشور کے ساتھ کرتی ہیں، مگر جب ان کا دور ختم ہوتا ہے تو محض چند میگا پروجیکٹس ہی مکمل ہوپاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جب پہلی مرتبہ حکومت میں آئی تو اس نے پالیسی دی کہ وہ5سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کرے گی۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بات کریں تو اس کی ساری توجہ موٹر ویز اور میٹرو بس پر مرکوز رہی جبکہ تیسرے دور میں انہوں نے اورنج ٹرین کے قیام اور بجلی کی کمی کو پورا کرنے پر بھی توجہ دی۔ جب2018 میں عمران خان انتخابی مہم چلا رہے تھے تو ان کا سارا زور اس بات پر تھا کہ قوموں کی ترقی سڑکوں کا جال بچھا کر نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار انسانی ترقی پر ہوتا ہے اور اسی لیے وہ موٹرویز اور میٹروز جیسے پروجیکٹس پر کیے جانے والے خرچ پر شدید تنقید کیا کرتے تھے لیکن اگر ان کے ابتدائی2سالہ دورحکومت پر نظر ڈالی جائے تو ان کی ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی ہے اور ان کا سارا زور میگا پروجیکٹس پر رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ عمران خان نے بڑے فخر سے راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کو لاہور میں لانچ کرنے کا اعلان کیا، یہی نہیں بلکہ کراچی کے ساحل سے دور جزیروں پر ایک نئے شہر کی تعمیر کا بھی اعلان خود انہوں نے ہی کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ2کروڑ20لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اگر خواندگی کی کم ترین سطح کو بھی مدِنظر رکھتے ہوئے بات کریں تو ملک میں شرح خواندگی محض60فیصد ہے یعنی جوہری طاقت رکھنے والی قوم تعلیمی شعبے میں دنیا کے190ممالک کے مقابلے میں نچلی سطح پر موجود ہے۔ اس صورتحال میں کیا ہم اپنے پڑوسیوں سے بھی مقابلہ کرنے کی اُمید کرسکتے ہیں؟ بنگلہ دیش میں شرح خواندگی73فیصد، نیپال میں68اور بھارت میں78فیصد ہے۔ اس پوری صورتحال میں جب ہمارے ملک کی53فیصد خواتین تعلیم سے محروم ہوں تو کیا ہم آبادی کو کنٹرول کرنے کی اُمید کرسکتے ہیں؟
اس لئے ہم یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ عمران خان کی حکومت محض چند ایسے پروجیکٹس کی تکمیل کی خاطر ضائع ہوجائے، جس کا کوئی بڑا فائدہ نہ ہو۔ ان کے چاہنے والے چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنی ساری توجہ تعلیم، صحت اور مقامی حکومتوں پر مرکوز رکھتے ہوئے انسانی ترقی کیلئے کام کریں۔ تاہم تعلیم کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جامعات بنا دی جائیں یا زیادہ سے زیادہ پی ایچ
ڈیز سامنے آنا شروع ہوجائیں، بلکہ ہمیں اپنی بنیاد کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، یعنی پرائمری اور سیکنڈری کی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ اگرچہ کچھ نجی اسکول یا فلاحی تنظیمیں اچھا کام کررہی ہیں لیکن قوم کا مستقل ان کے ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتا۔ اس شعبے میں بہتری صرف اسی صورت ممکن ہے جب سرکاری تعلیمی اداروں میں بہتری آئے گی۔ لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سرکاری اساتذہ کی بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور وہ بس اسی وقت کام کرتے ہیں جب ان کا دل کرتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ مخلص اور لگن سے کام کرنے والے اساتذہ تقریبا معدوم ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں اس یونین کی طاقت کو ختم کرنا پڑے گا اور سرکاری اساتذہ جو دیہی علاقوں میں بطور سرکاری ملازم سال کے7ماہ یا کچھ زیادہ کام کرنے کے عوض بہترین تنخواہ لیتے ہیں ان کو جگانے اور یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے کاندھوں پر قوم کی ترقی کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اور عمران خان اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ یہ کرسکتے ہیں۔ اس لئے جہاں ایک طرف یہ واضح نظر آرہا ہے کہ ان کے5سال پکے ہیں، ایسی صورت میں انہیں سیاسی فائدے کے حصول کی خاطر بڑے بڑے میگا پروجیکٹس کے بجائے اس طرح کے کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے اس کام کو شروع کرنے کیلئے وزیرِاعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ دیہی علاقوں میں موجود سرکاری اسکولوں کے اچانک دورے کریں۔ اس مقصد کیلئے وہ سرکاری ہیلی کاپٹر اور جہازوں کا استعمال بھی کرسکتے ہیں تاکہ واضح ہو کہ ان کی ترجیحات اس وقت کیا ہیں۔ پھر جو اساتذہ اپنے کام سے مخلص ہوں انہیں انعامات سے نوازا جانا چاہیے جبکہ جو اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برت رہے ہوں انہیں ضرور سزا ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی تقریروں میں کرپشن کی کہانیوں کے بجائے تعلیم کی بہتری سے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں محض میڈیکل بورڈ اور انشورنس کے معاملات کو ٹھیک کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ دیہی علاقوں میں جو صحت کے مراکز اور ڈسپنسریاں ہیں وہاں انتظامی معاملات اور صحت سے متعلق سہولیات میں بہتری اپنی ترجیحات میں شامل کرنی ہوں گی۔ پھر جب وہاں موجود عملے کو اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ اس کی کارکردگی پر کوئی نظر رکھنے والا ہے تو یقینی طور پر ان کی کارکردگی میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔ بس اسی لیے عمران خان کے خیر خواہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی5سالہ مدت کو پورا کرنے پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اصل مقصد کی طرف جاتے ہوئے انسانی ترقی کے معاملات کو ترجیح دینا شروع کریں تاکہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ