3 210

ٹیچرز تنخواہیں، یوٹیلیٹی سٹورز اور طلبہ مسائل

اس کالم کی وساطت سے صوبے کے کونے کونے میں بسنے والے قارئین سے رابطہ اور ایک دوسرے کے حالات ومسائل سے آگاہی کا جو سلسلہ ہے وہ باعث مسرت ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے قارئین کو گو ناگوں مسائل درپیش ہیں اور وہ ایک ایسے گھن چکر میں برسہا برسوں سے پھنسے ہوئے ہیں کہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ملتی۔ اکثر وبیشتر عوامی مسائل ایسے ہیں جو کسی ایک دورحکومت کے نہیں بلکہ جتنے ادوار گزرے ہیں آبنوشی، سڑک، بجلی، گیس، تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل ومشکلات ہیں۔ طالب علموں کے اپنے الگ سے مسائل ہیں، اب تو جامعات کے مالی بحران کرونا کے باعث آن لائن کلاسز کے حوالے سے بعض طلبہ کی مشکلات، مہنگائی، آٹا کی عدم دستیابی وبحران یہاں تک کہ گلیوں میں ٹوٹے نلکے اور بہتے پانی اور صفائی تک کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پر باقاعدہ سرکار کے خزانے سے رقم خرچ اور عملہ وانتظامات مکمل ہونے کے باوجود لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ یہاں دیکھا جائے تو مسئلہ صرف وسائل کا نہیں بلکہ وسائل سے بہتر استفادہ نہ ہونا، بدانتظامی اور سب سے بڑھ کر سرکاری ملازمین کی کام چوری، تساہل پسندی اور افسران کا دفتروں میں بیٹھ کر فرضی حالات کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ اس دن عزیز بھائی سے بات ہو رہی تھی ان کے کسی دوست کی ڈیرہ اسماعیل خان میں فیلڈ ڈیوٹی تھی، موجودہ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز سربراہ شعبہ تھا، گرمیوں کی صبح پانچ بجے فیلڈ ورکرز کو فیلڈ میں جانا تھا انہوں نے طریقہ کار سے خود آگاہ ہونے کیلئے کام کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور صبح پانچ بجے نہ صرف تیار ملے بلکہ دو تین دن فیڈ سٹاف کیساتھ کام کیا، یہ ایک مثال جس فرض شناس افسر نے خود قائم کی تھی آج وہ چیف سیکرٹری ہیں، تو حق یہ ہے کہ وہ صوبے کے تمام افسران کو اپنے اپنے محکموں کے سپروائزری عملے اور متعلقہ شعبے کے تمام چھوٹے بڑے کاموں سے چند دن لگا کر آگاہی حاصل کرنے کے بعد اصلاح احوال کا پابند بنائیں تاکہ ان مسائل اور معاملات کا ازالہ اور اس میں کمی آئے جن کا کالم کے شروع میں حوالہ دیا گیا۔ حاجی شاہ عالم نے ٹانک بازار کی سڑک اور علاقے کی دوسری سڑکوں کی کچی اور ناگفتہ بہہ حالت اور نکاسی آب کی ابتر صورتحال کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ صرف ٹانک ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ اکثر وبیشتر اس قسم کے مسائل کے حل کی اپیلیں ہوتی رہتی ہیں، اس پر حکومت کی توجہ درکار ہے بلکہ حکومت صوبے میں اس قسم کے مسائل کے حل کیلئے فوری طور پر کام شروع کروائے تو بہتر ہوگا۔امیر حمزہ ڈسٹرکٹ لوئر چترال سے توجہ دلاتے ہیں کہ چترال میں یوٹیلیٹی سٹوروں پر دال، چینی، آٹا اور گھی سمیت دیگر ضروری اشیاء دستیاب نہیں۔ چترال دورافتادہ ضلع ہے، یہاں کے باسیوں کو اس شدید مہنگائی میں اگر یوٹیلیٹی سٹورز سے بھی اشیائے خوردنی میسر نہ آئیں تو ہم کہاں جائیں۔ سوال بڑا ہی فکرانگیز ہے، حکومت کو یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیائے خوردنی کی فراہمی یقینی بنا کر اس کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ کالم میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالب علموں کو اپنا کورس اور تھیسس مکمل کرنے سے داخلے کے باوجود اساتذہ کی کمی کے باعث روکے جانے کا مسئلہ شائع ہوا تھا، خواتین یونیورسٹی ملتان میں بھی پی ایچ ڈی سکالرز کو اسی طرح کی مشکل اور عدم تعاون کا سامنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جامعات میں طلباء اور طالبات کیلئے مشکلات کھڑی کرنے والے بہت ہیں اور ان کے مسائل کے حل اور تعلیم کی تکمیل کیلئے سازگار ماحول اور مناسب سہولتیں دینے والا کوئی نہیں۔ ممکن ہے یہ محولہ دونوں جامعات ہی کا مسئلہ نہ ہو بلکہ تقریباً ہر دوسرے سرکاری جامعہ کی کہانی ہو اس قسم کی مشکلات اور سالہا سال گزرنے کے باوجود ایم فل اور پی ایچ ڈی نہ کر سکنے کی بناء پر ہی طلبہ نجی جامعات سے رجوع کر رہے ہیں اور لاکھوں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری جامعات کا یہ حال رہا تو ان کا حشر بھی سرکاری سکولوں جیسا ہوگا اور شاندار عمارتوں اور وسیع کیمپسز ویران ہو جائیں گے۔ حکومت اور ایچ ای سی کو اس کا نوٹس لینے کیساتھ جامعات کو وسائل کی فراہمی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے تاکہ محض فنڈز کی کمی کے باعث اعلیٰ تعلیم کا نظام تباہی کا شکار نہ ہو۔جانکی ضلع ٹانک سے گورنمنٹ کمیونٹی سکول کی ہیڈ ٹیچر زاہینہ بی بی کا برقی پیغام ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ کمیونٹی سکول کے اساتذہ کی تنخواہیں فروری2019 سے بند ہیں بغیر کسی وجہ کے، جبکہ سکول کورونا کی چھٹیوں کے علاوہ ریگولر طور پر کھلا ہوا ہے۔ ہمارے ڈسٹرکٹ پراجیکٹ آفیسرDPOباربار یقین دہانی کراکے تھک چکے ہیں کہ ہماری (سٹاف کی) تنخواہیں جلد ادا کی جائیں گی لیکن حکومت کی طرف سے فنڈز نہیں دئیے گئے جس کے باعث ہمیں تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوئی۔ برائے کرم ہماری فریاد حکام بالا تک پہنچائیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے آمین۔
قارئین اپنی شکایات9750639 0337- پر میسج اور واٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی