p613 152

مشرقیات

حجاج بن یوسف کے دور میں مختلف بغاوتیں ہوتی رہیں جن کو حجاج بڑی سختی سے کچلتا رہا۔ بغاوت کی مرتکب ایک قوم پر اسے غلبہ حاصل ہوا تو اس نے فوجیوں کو حکم دیا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے۔ جلادوں نے قتل کرنا شروع کیا۔ جب ایک اعرابی باقی رہ گیا تو نماز کاوقت ہوگیا۔ حجاج نے اپنے ایک سالار اور معتمد قتیبہ بن مسلم کو بلایا اور کہا کہ یہ شخص آج رات تمہارے پاس رہے گا۔ کل اسے ہمارے ہاں پیش کیاجائے۔
قتیبہ بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے اس اعرابی کو اپنے ہمراہ لیا اور گھرکی طرف چل دیا۔ راستے میں اس نے مجھ سے بڑی لجاجت سے کہا کہ قتیبہ! اگر تمہارے اندر کوئی جذبہ خیر ہے تو میں ایک بات کہوں۔ میں نے کہا کہ ہاں بتائو’ کیا بات ہے؟ کہنے لگا کہ میرے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں اور کل حجاج مجھے قتل کرنے والا ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ تم مجھے گھر جانے دو تاکہ میں لوگوں کی امانتیںواپس کردوں۔میں رب العزت کو اپنا کفیل بناتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں کل واپس آجائوں گا۔میں نے انکار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہیں چھوڑ دوں اور تم واپس آجائو گے۔لیکن وہ مسلسل میری منت سماجت کرتا رہاحتیٰ مجھے اس پر ترس آگیا اور اعتبار کرلیا۔ چنانچہ میں نے اسے گھر جانے کی اجازت دے جیسے ہی اسے اجازت ملی وہ فوراً اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ ادھر اس کے جانے کے بعد مجھے پچھتاوا لگ گیا کہ یہ میں نے کیاکردیا۔ ادھر حجاج کاڈر کہ اس کو قیدی نہ دیا تو اس کا میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ بہر حال وہ رات میری زندگی کی سب سے بھیانک رات تھی جو مسلسل غم اور مناجات میں گزری۔ اگلے دن صبح سویرے ہی میرے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ میں فوراً باہر گیا۔ دیکھاتو وہ اعرابی دروازے پر کھڑا تھا۔ میں نے اسے دیکھا تو میری جان میں جان آئی۔ پوچھا کہ واپس آگئے ہو۔
کہنے لگا:ہاں تمہارے سامنے تو کھڑا ہوں۔
جب میں نے رب العزت کو اپنا کفیل بنایا تھا تو واپس کیسے نہ آتا؟
میں اسے ہمراہ لے کر حجاج کے پاس حاضر ہوا۔ قیدی کو میں نے دربان کے پاس چھوڑا۔ حجاج نے دیکھتے ہی مجھ سے سوال کیا کہ قتیبہ!وہ ہمارا قیدی کدھرہے؟ میں نے کہا کہ امیر کی خیر اور سلامتی ہو’ دروازے پرکھڑا ہے۔ میں دروازے کی طرف لپکا اور اس کو حجاج کی خدمت میں پیش کردیا اور رات والا واقعہ بھی بیان کردیا۔ حجاج نے اس قیدی کو اوپر سے نیچے ‘ نیچے سے اوپر دیکھنا شروع کردیا’ گویا وہ کوئی فیصلہ کر رہا اچانک حجاج کی آواز گونجی: یہ قیدی میں نے تمہیں بخش دیا۔ اب جو اس کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تمہاری مرضی ہے۔ میں نے قیدی کو ہمراہ لیا اور باہر نکل آیا۔
باہر نکل کر قیدی سے کہا: جہاں تمہارا جی چاہے چلے جائو’ میری طرف سے تم آزاد ہو۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''