4 203

ہمت کرے انساں

ہر آنے والا لمحہ جس میں ہم جیتے ہیں ہمارے تجربات میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے لیکن یہ ساری کہانی ہے بڑی عجیب! سیکھا ہوا بھول بھی جاتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے تجربات سے کچھ بھی نہیں سیکھتے اور ایک ہی غلطی بار بار دہراتے رہتے ہیں مگر ایک بات تو طے ہے کہ ہماری کامیابی یا ناکامی میں ہماری سوچ ہمارے رویوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہی سب کچھ ہماری پہچان ہمارا تعارف بن جاتا ہے۔ لوگ ہمارے رویوں کی روشنی ہی میں ہمارے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں، اگر سب کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جارہا ہے تو پھر اس بات کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے کہ ہمیں اپنے بارے میں علم ہونا چاہئے۔ جہاں ہم رات دن دوسروں کے حوالے سے سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں ان میں طرح طرح کی خرابیاں نکالنا ہمارا من بھاتا مشغلہ ہے وہاں ہمیں اپنے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم زندگی کی گاڑی کو کیسے چلا رہے ہیں؟ کیا زندگی ایک صاف شفاف سڑک ہے جس میں کوئی گڑھا نہیں ہے، کسی جگہ نشیب وفراز نہیں ہے بس ایک ہموار راستہ ہے جس میں کوئی موڑ نہیں ہے، کسی جگہ سٹیئرنگ گھمانے کی ضرورت نہیں پڑتی بس آپ ایک آرام دہ نشست پر بیٹھے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، زندگی کا سفر انتہائی پیچیدہ ہے یہاں ہر لمحہ پہلے سے مختلف ہے، نت نئے ہنگاموں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کل کیا تھا آج کیا ہے اور آنے والا کل ہمارے لئے کیا لیکر آئے گا کوئی نہیں جانتا کسی کو نہیں معلوم! اس جہان ناپائیدار میں بہت سی مہارتوں کی ضرورت پڑتی ہے، بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر بات بنتی ہے اور بات کا بننا بھی کتنا ادھورا ہوتا ہے، ہر لمحہ تشنگی کا احساس غالب رہتا ہے، بہت کچھ پاکر بھی بہت کچھ کھونے کا احساس ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے۔ اسی کو زندگی کے رنگ کہتے ہیں اور اسی سے زندگی کا لطف ہے، اگر زندگی کا سفر ایک سپاٹ سفر ہوتا سب کچھ دو جمع دو برابر ہے چار کی طرح ہوتا تو یقین کیجئے زندگی کتنی بے کیف ہوتی ہے، کہانی کا لطف اسی وقت آتا ہے جب اس کا انجام نامعلوم ہو۔ ڈی ایچ لارنس نے کہا تھا جب کہانی کے معنی طے ہوجائیں تو یہ اپنی موت آپ مرجاتی ہے اور پھر حضرت انسان کی تخلیق اس طرز پر کی گئی ہے کہ یہ کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا یہ ہر لمحہ ہزاروں لاکھوں
باتیں سوچتا رہتا ہے، اس کی خواہشات کبھی بھی فنا نہیں ہوتیں! وہ جو غالب نے کہا تھا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
خواہشات کا ہونا انسانی فطرت میں شامل ہے اور ان خواہشات کے حصول کیلئے جو کوششیں کی جاتی ہیں جو بھاگ دوڑ کی جاتی ہے اسی سے زندگی کے ہنگامے ہیں بس کہنا صرف یہ ہے کہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کیلئے ڈرائیور کا ماہر ہونا بہت ضروری ہے، اس کی مہارت سفر کو آسان بنا دیتی ہے اور اس کا اناڑی پن سفر کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ سب سے پہلے ہم زندگی کے دکھ لیتے ہیں جن سے ہمیں بچپن میں ہی ڈرایا جاتا ہے، تکلیف سے بچنا اور خوف محسوس کرنا ہماری فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، ہم ہر وقت راحت آرام اور خوشیوں کے حصول کے حوالے سے سوچتے رہتے ہیں۔ اس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینے والے لوگ تکالیف اور مصیبتوں سے گزرے بغیر بڑے لوگ نہیں بنے، یہی وہ تکالیف اور مشکلات تھیں جنہوں نے انکی زندگی کو دوسروں کیلئے قابل رشک اور قابل تقلید بنایا۔ انہوں نے تکالیف اور مشکلات کو زندگی کا ایک اہم حصہ سمجھا اور وہ یہ بات جان گئے تھے کہ
کامیابی اور ناکامی، خوشی غمی، مشکلات اور آسانیاں زندگی میں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ وہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہوتے ہیں کہ دریا کی لہریں صرف اوپر کی طرف نہیں اُٹھتیں یہ اوپر بھی اُٹھتی ہیں اور نیچے بھی گرتی ہیں یہ تیرنے والے کی ہمیشہ مدد نہیں کرتیں بلکہ یہ بسا اوقات اسے اُٹھا اُٹھا کر پٹختی رہتی ہیں۔ کامیاب لوگ صرف اتنی بات جانتے ہیں کہ اسی کا نام زندگی ہے، وہ اس بات سے باخبر ہوتے ہیں کہ اگر انہوں نے مردانہ وار آگے بڑھنے اور جدوجہد کا سبق بھلا دیا اور اپنے آپ کو دریا کی بے رحم لہروں کے سپرد کر دیا تو پھر وہ کبھی بھی کنارے تک نہیں پہنچ سکیں گے۔سامنے کی بات ہے کہ کسی بھی بلند مقام تک پہنچنے کیلئے نیچے سے اوپر سفر کرنا پڑتا ہے، نشیب سے گزر کر فراز تک پہنچنا پڑتا ہے، تو پھر نشیب سے خوفزدہ کیوں ہوا جائے؟ پھر ناکامی سے ڈرنا کیا معنی رکھتا ہے؟اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی مکمل نہیں ہے لیکن زندگی اچھی تو ہے اس سے پیار تو کیا جاتا ہے، جینے کی آرزو کسے نہیں ہوتی سب جینا چاہتے ہیں اور اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن جب تکالیف امتحان لیتی ہیں انسان مشکلات میں گھرا ہوتا ہے تو دل کی بات ماننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے قدم اُٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُمید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟