p613 155

اعتراف مہنگائی

سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کا مہنگائی کا بجا طور پر اعتراف مسئلے سے آگاہی اور خاص طور پر عوام کی آواز پر کان دھرنے کے بارے سنجیدہ عمل ہے جس کا سوائے اس کے کوئی اور حاصل نہیں کہ عوام کو یہ باور ہو کہ عوامی نمائندے ان کی مشکلات سے واقف اور حل کیلئے کوشاں ہیں۔ صوابی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر نے اس امر کا اعادہ کیا کہ ہمارے لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں لیکن بہت جلد اس پر قابو پا لیا جائے گا۔ ملک میں چینی اور آٹے کا مسئلہ جلد حل ہوجائے گا۔سپیکر اسد قیصر نے مہنگائی پر قابو پانے کی عوام کو یقین دہانی کرائی ہے، وزیراعظم اور وفاقی وزراء بھی ایسی ہی یقین دہانی کراچکے ہیں۔ وزیراعظم مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے کے احکامات دے چکے ہیں، وزیراعلیٰ بھی سنجیدگی کیساتھ مہنگائی میں کمی لانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن مہنگائی ایک ایسا جن ہے جس پر قابو پانے کی جتنی کوششیں ہوتی ہیں مہنگائی کا جن خود کو ان اقدامات سے زیادہ طاقتور ثابت کرتا ہے۔مشکل امر یہ ہے کہ حکومت نے ایک طرف مہنگائی میں کمی کی یقین دہانی کرائی ہے مگر دوسری طرف یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں ایسے اقدامات سے مہنگائی میں کمی نہیں کی جاسکتی ڈپٹی کمشنروں نے عوامی مقامات پر اشیاء کے نرخوں کے بورڈ آویزاں کر کے اچھا اقدام کیا ہے جس کے بعد ضرورت اس امر کی رہ جاتی ہے کہ سرکاری نرخنامہ پر عملدرآمد بھی کراکے ثابت کیا جائے کہ انتظامیہ نرخنامے کے نفاذ میں سنجیدہ اور اہلیت کی حامل ہے۔عوام کو مہنگی ہونے والی اشیاء کے بائیکاٹ کی ترغیب اگر سرکاری سطح پر نہیں دی جا سکتی تو عوامی سطح پر ایسا کر کے مہنگی ہونے والی چیز کی قیمت پر عوامی احتجاج ریکارڈکیا جائے۔ صارفین اور عوام اگر کوشش کریں تو حکومت کی مدد ہوسکتی ہے اور مہنگائی کے ذمہ دار عناصر کا مقابلہ ہوسکتا ہے ۔ مل جل کر کوشش کرنے اور حکومتی وانتظامی اقدامات کو مؤثر بنا کر مہنگائی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
اچھی کاوش
پشاور کی تاریخی حیثیت اُجاگر کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کیلئے پشاور میں خواتین اور ارکان صوبائی اسمبلی کیلئے تفریحی دورے کا انعقاد کیا گیا۔ دورے کے دوران قدیم رہائشی شہرپشاور کے تاریخی مقامات گورگٹھڑی، سیٹھی ہائوس، نمک منڈی، مسجد مہابت خان ، عجائب گھر اور دیگر مقامات کی سیر کرائی گئی۔ صوبائی دارالحکومت سمیت یہاں کے مختلف شہروں یہاں تک کہ گائوں اور دور دراز مقامات پر قدیم تہذیب طرز زندگی او رتاریخی مقامات کی صورت میں سیاحوں کی دلچسپی کے جو سامان ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ان مقامات تک رسائی کیلئے خاص انتظامات کی ضرورت ہے بہرحال صوبائی دارالحکومت کے مختلف مقامات کی ایک ہی روز سیر کا معقول انتظام ایک اچھی سعی ہے جس میں صرف اندرون وبیرون ملک لوگوں ہی کی دلچسپی نہیں بلکہ مقامی اور خود اس شہر کے باسیوں کیلئے بھی یہ تفریح وسیاحت کیلئے کشش کا باعث ہیں۔ ہمارے تئیں اسے بیگمات اور خواتین اراکین اسمبلی تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس کا انتظام عوامی سطح پرہونا چاہئے اور عوام کو اس طرح کے تفریحی مواقع مہیا کرنے پر توجہ دینی چاہئے بہرحال یہ ایک اچھی کاوش ہے جسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
منشیات کی وباء میں تیزی
صوبائی دارالحکومت پشاور میں نشے کے عادی افراد کی تعدا د میں خطر ناک حدتک اضافہ حکومت اور خاص طور پر انسداد منشیات کے اداروں اور پولیس کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ ہمارے نمائندے کے مطابق متعلقہ انتظامیہ اس حوالے سے بے بس نظر آتی ہے، ہیروئن کے عادی افراد کے باعث رات کے وقت شہری بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہر سال سردی کی شدت کے باعث کھلے مقامات پر نشے کے عادی افراد کے رات کو ٹھہرنے کے باعث آئے روز منشیات کے عادی کسی نہ کسی شخص کی موت واقع ہو جاتی ہے جو اپنی جگہ المیہ ہے۔اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے منشیات کی سپلائی کی روک تھام اور نشے کے عادی افراد کو جلد سے جلد بحالی کے مراکز منتقل کرنے کی ضرورت ہے جس میں تاخیر مناسب نہ ہوگا۔
زرعی ملک میں گندم اُگائو مہم کی نوبت کیوں؟
محکمہ زراعت بنوں ڈویژن کی جانب سے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ گندم اُگانے پر قائل کرنے کیلئے خصوصی مہم محکمے کی ذمہ داری اور وقت کی ضرورت ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ایک زرعی ملک میں کسان گندم کی کاشت سے بددل کیوں ہوگئے ہیں، ایک وقت میں تو پاکستان گندم برآمد بھی کرنے لگا ہے، اب خود ملکی ضروریات کیلئے کافی گندم نہیں ملتی اور حکومت کو گندم درآمد کرنا پڑرہا ہے، مضحکہ خیزامر یہ بھی ہے کہ ایک طرف روس سے گندم درآمد ہورہی ہے اور دوسری طرف گندم افغانستان سمگل ہورہی ہے، عین گندم کی فصل کی منڈی آمد پر کمی کارونا رویا گیا اور خود حکومتی ذمہ دار عناصر نے بھاری مقدار میں گندم غائب ہونے کی تصدیق کی۔ گندم ملک کے عوام کی خوراک کا بنیادی اور سب سے ضروری جزو ہے اس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے نرخ بڑھانے کا تدارک ہونا چاہئے اور اس کی سمگلنگ سختی سے بند کرانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام