3 214

بہروپیئے

میاں شہباز شریف کی وہ گفتگو تو ریکارڈنگ میں موجود ہے جو انہوں نے بھرآئے ہوئے لہجے میں میاں نواز شریف کے فرزند کے ساتھ کھڑے ہو کر کی اور قوم سے نواز شریف کے لیے دعا کرنے کے لیے کہا۔ اس بیماری کو بہانہ بنا کر ن لیگ کی قیادت اپنے لیے بعض رعایتوں کی طلبگار تھی جو کہ حسب توقع اور منشاء انہیں نہ مل سکیں تو اچانک بیمار نواز شریف تندرست و توانا دکھائی دینے لگے اور ایک دن وہ ہشاش بشاش ”ووٹ کو عزت دو” کا بیانیہ لے کر ٹی وی پر جلوہ افروز ہو گئے۔ پھر اس بیمار شخص نے جو پاکستان سے یہ بہانہ بنا کر نکلا تھا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اور جس کا ابھی لندن میں علاج بھی شروع نہیں ہوا جس طرح تند و تیز لہجے میں گوجرانوالہ جلسہ میں تقریر کی ہے وہ اس کی بیماری پر تو سوالیہ نشان ہے ہی اپنے مندرجات کے حوالے سے بھی قابل اعتراض ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے پاکستان کی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کو غیر ملک میں بیٹھ کر اپنی ہرزہ سرائی کا نشانہ بنانا کسی طور بھی قابل قبول طرز عمل نہیں۔ یہ وہ سربراہ ہیں جن کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے مسلم لیگ(ن) نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ بل کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔ اگر ان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہے تو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ کیوں دیا گیا۔ نواز شریف نے پانامہ کیس سے بچنے کے لیے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی تھی اور جب فوج ان کے مقاصد کے لیے استعمال ہونے پر تیار نہ ہوئی تو وہ فوج اور اس کی قیادت کے خلاف بولنے لگے۔ ”ووٹ کو عزت دو” کا جعلی بیانیہ تیار کیاگیا جسے قوم نے 2018ء کے انتخابات میں مسترد کر دیا۔ اس شکست کے تناظر میں بہروپ بدلا گیا اور شہباز شریف کو نئی ہدایات کے ساتھ آگے بڑھایا گیا ۔ عمران خان وزیر اعظم نہ ہوتے تو ماضی کی طرح شریف خاندان چند برس کی خاموشی گزارنے کے بعد حسب روایت ساز باز کر کے واپسی کی راہ ہموار کر چکے ہوتے۔ وزیر اعظم اور فوجی قیادت چونکہ ایک صفحے پر ہیں لہٰذا اقتدار چور راستے سے حاصل کرنے کے امکانات نہ صرف صفر ہیں بلکہ ان رعایتوں کا بھی امکان نہیں ہے جو شریف خاندان ایسے مواقع پر خفیہ ذرائع سے حاصل کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے نواز شریف کی فرسٹریشن بڑھی ہے اور قوم ان کا نیا ”انقلابی چہرہ” دیکھ رہی ہے۔ یہ ان کا نیا بہروپ ہے ۔ آج وہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹوزرداری کے ساتھ مل کر اعلان کر رہے ہیں کہ ہماری لڑائی عمران خان کو لانے والے کے خلاف ہے۔ قوم کے حافظے میں ان کی وہ باتیں ابھی موجود ہیں جو یہ ایک دوسرے کے خلاف کیا کرتے تھے۔ آصف زرداری نے میاں نواز شریف کو ”قومی چور” قرار دیا اور جلسہ عام میں کہا ایسے سیاسی درندے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ بلاول بھٹو کہتے آ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کا اصل باپ ضیاء الحق ہے، نواز شریف ڈرامہ بازی میں ایکسپرٹ ہے’ نواز شریف ہارس ٹریڈنگ کا استاد ہے ‘ یہ بلاول بھٹوہی تھے جنہوںنے پانامہ کیس کے تناظر میں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف اور اُن کی فیملی نے کرپشن کی ہے اور یہ بھی بلاول ہی نے کہا کہ نواز شریف جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ دوسری طرف شہباز شریف آصف زرداری کے بارے میں کہتے رہے کہ تمہیں اور تمہارے لٹیرے ساتھیوں کو چوراہوں پر الٹا لٹکائیں گے ، نواز شریف آصف زرداری کے بارے میں کرپشن کا راگ ہر دور میں الاپتے رہے ہیں۔ آج لیکن یہ سب اکٹھے ہیں اور ان کا نشانہ پاکستان کی مسلح افواج اور وزیراعظم عمران خان ہیں۔ وقت، حالات اور ضرورت کے مطابق ان سیاستدانوں نے جو بہروپ بدلے ہیں وہ پاکستانی عوام کے سامنے ہیں۔ اپنی مجروح ساکھ کے باوجود یہ سیاسی بہروپیئے پرامید ہیں کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ عوام کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ نواز شریف کی گوجرانوالہ جلسہ میں تقریر سے یوںلگا کہ ان سے بڑا غریب کا کوئی ہمدرد نہیں ہے’ انہوں نے جس دکھ بھرے لہجے میں غریبوں کی مزاج پرسی کی اُس کو سن کر قطعاً گمان نہیںگزرتا کہ یہ شخص برسوں پاکستان کا حکمران رہا ہے اور پاکستان کو تباہی کے دہانے پرپہنچانے میں اس کا بڑا کردار رہا ہے۔ گوجرانوالہ جلسہ کی ناکامی کے بعد کراچی جلسے میں عوام کی عدم شرکت کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ عوام اب ان کے دھوکے میں نہیں آئیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپوزیشن کی نام نہاد تحریک ابتداء میں ہی دم توڑ جائے گی۔

مزید پڑھیں:  صحت کارڈ سے علاج میں وسعت