p613 155

ترکی بہ ترکی نہیں مصلحت کوشی

وفاقی وزراء نے حزب اختلاف کی جماعتوں کی تحریک کے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تحریک سے نظام رخصت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیارہ رکنی ٹیم یعنی گیارہ جماعتوں کے اتحاد کے پاس بھی مسائل کے حل کیلئے کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ پی ڈی ایم جلسے کی قیادت ٹی ٹی پی کے دوست کر رہے ہیں، ایک اور وفاقی وزیر نے نوازشریف پر ہندوستان کی زبان بولنے اور سابق وزیراعظم کو کلبھوشن سے تشبیہ دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحادپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے حکومت مخالف تحریک کے دوران گوجرانوالہ کے بعدکراچی میں بھی اپنی طاقت کامظاہرہ کیا ہے، جلسے سے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمان’ مریم نواز’ بلاول’ ڈاکٹر عبدالمالک’اخترمینگل’امیرحیدرہوتی اوردیگررہنمائوں نے پرجوش خطاب کیا اورحکومت پرکڑی تنقید کی۔ کراچی میں جلسہ عام سے خطاب میں مولانافضل الرحمان نے اعلان کیا کہ ہم اس حکومت کوتسلیم نہیں کرتے، ہم مقتدر قوتوں سے تسلیم کروائیں گے کہ غلطی ہم سے نہیں کسی اورسے ہوئی ہے۔ کسی کوشکوہ ہے تونادان دوستوں سے بچیں، انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں آئین کی بالادستی کی حقیقی منزل حاصل کرکے رہیںگے۔ ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں گرما گرمی اپنی جگہ کراچی میں کیپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری کے حالات وصورتحال سے کسی اور صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے جس کے تناظر میں وفاقی وزراء کے نظام کو خطرات لاحق ہونے کا اندازہ درست نظر آتا ہے۔ سیاست میں ‘ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ’ اور کسی بھی ناقابل یقین ڈرامائی تبدیلی کا امکان ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ سیاست میں دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں، مذاکرات ومفاہمت تو سیاست وجمہوریت کا خاصہ اور حسن ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں تو اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل اور ڈھیل کوئی افسانہ نہیں، ان تمام امور کے باوجود اس وقت امکانات کے سارے دروازے بظاہر بند یہاں تک کہ کوئی کھڑکی بھی کھلی نظر نہیں آتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ کشیدگی میں اضافہ اور درجہ حرارت بڑھتی جارہی ہے جو ملک وقوم کے مفاد میں نہیں۔ سیاسی جوڑ اورجلسے جلوسوں کا ملکی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے، جی ڈی پی کی موجودہ کم شرح اور مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ انتہائی امیر طبقے کے علاوہ پورے ملک کے عوام کیلئے سخت تشویش کا باعث ہے جس کا حل نہ تو حکومت کے پاس نظر آتا ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کو اگر ڈرائیونگ سیٹ دی جائے تو ان کے پاس کوئی کھل جا سم سم قسم کا فارمولہ ہے۔ جاری صورتحال میں جتنی طوالت ہوگی ملکی اور عوامی مسائل میں اضافہ ہی کا امکان ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما جن تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ان کا مخاطب حکومت کم اور اسٹیبلشمنٹ زیادہ ہے اور یہ صورتحال سیاست سے بڑھ کر ملکی وقار اور سلامتی کا سوال ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے ہی اداروں کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں، بہرحال اس صورتحال کا حل سوائے مکالمہ کے کچھ اور نہیں۔ جملہ فریقین جتنا جلد مکالمہ شروع کریں اور ایک ایسا قومی فورم بنایا جائے جس میں عدلیہ، مقننہ اور منتظمہ کھلے دل سے اپنی غلطیوں اور کوتاہی کا جائزہ لینے کیساتھ ساتھ آئینی حدود کی پابندی اور کردار وعمل کا متعین طریقہ کار اختیار کیا جائے تو اختلافات کی نوبت نہیں آئے گی۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف ہر دو فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات کو ناقابل واپسی نکتے پر پہنچانے سے گریز کریں اور سیاسی معاملات واختلافات کا حل سیاسی انداز میں نکالیں اور ملک میں عدم استحکام وانتشار کا سبب بننے سے گریز کیا جائے، خاص طور پر وفاقی وزراء کو ماحول کو کشیدہ بنانے والے بیانات سے گریز کرنا چاہئے، ترکی بہ ترکی جواب مسائل کا حل نہیں مصلحت کوشی بہتر حکمت عملی ہوگی۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے