2 311

کیا پوچھتے ہو حال میرے کاروبار کا

آئینہ دیکھنے کے لئے ہوتا ہے تاکہ اس میں اپنی یا اپنی سی شکل نظر آئے اور نظر آنے والی شکل وصورت میں کوئی عیب یا نقص ہو تو اس کو دور کیا جاسکے یا بھتنی جیسی صورت کو انسانوں جیسی شکل و صورت بنا کر دنیا والوں کے سامنے پیش کیا جا سکے یا جیسی صورتیا ہے اسے دیکھ کر رب کا شکر ادا کیا جاسکے یا اسے دیکھ کر اپنی اوقات میں رہنے کی کوشش کی جا سکے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بہت سے لوگوں کو آئینہ دیکھنے کی عادت نہیں ہوتی وہ آئینہ دیکھنے کی بجائے دوسروں کو آئینہ دکھایا کرتے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے بھولے باچھا کو ایک حسینہ ایسی پسند آئی کہ وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ نادان تھا نہ بے چارہ اور اس پر طرہ یہ کہ وہ کسی ماہ جبین کو دیکھتا تو دل اس کے قابو میں نہ رہتا۔ جلد ہی دل پھینک عاشق بن کر چھچھوری حرکتیں کرنے لگتا۔ اس دن بھی اس نے ایسا ہی کیا ایک حسین ماہ جبین کی صورت دیکھ کر لٹو ہوگیا بے چارہ جیسے کہہ رہا ہو۔
میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے
یہ جو حسین اور ماہ جبین ناریاں ہوتی ہیں بلا کی ذہین اور قیافہ شناس ہوتی ہیں۔ جو کوئی ان کے چہرے یا خدو خال کی جانب دیکھتا ہے فوراً بھانپ جاتی ہیں کہ حضرت کے دل میں کیا ہے ۔ اور کبھی کسی کی نظروں کی تاب نہ لاکر سر کا پلو درست کرنے لگتی ہیں۔ لیکن جب دیکھتی ہیں کہ ان کے حیاء کرنے کے باوجود ان کی جانب ٹکر ٹکر دیکھنے والا باز نہیں آرہا تو وہ منہ پھیر کر اپنے حسن و جمال کا دفاع کرنے لگتی ہیں۔ اگر ایسا کرنے سے بھی وہ ٹکر ٹکر دیکھتے رہنے والے کی نظروں سے اپنے آپ کو بچا نہ سکیں تو وہ چل دیتی ہیں اس محفل کو چھوڑ کر جہاں ایسی بد تمیز نظروں والے عشاق نامراد موجود ہوں۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا جب بھولا باچھا پیا نے ایک پٹاخہ جیسی ناری تاڑی۔ وہ بے چاری مرتی کیا نہ کرتی بھولے باچھا کی چھچھوری حرکتیں دیکھ کر پلو سنبھال کر یوں چل دی جیسے کہہ رہی ہو
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اس کا اس طرح اٹھ کر چل دینا بھولے میاں کو ہضم نہ ہوسکا سو وہ اٹھ کر اس حسن سراپا کے پیچھے چل دیا۔ اور پھر تو اس وقت حد کردی اس نے جب اس کو مخاطب کرکے وہ کہنے لگا”جی سنئے” بھولے بادشاہ کی یہ بات سن کر وہ خوبرو لمحہ بھر کے لئے رکی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ مگر یہ کیا۔ جیسے ہی اس نے مڑ کر دیکھا بھولے باچھا کی اندر کی سانس اندر اور باہر کی باہر رہ گئی۔ اس لئے کہ اس پیکر حسن و جمال کا چہرہ اک عالم غیظ و غضب کے باعث اور کا اور ہوچکا تھا۔ وہ جسے اپنے من کی رانی اور حسن کی ملکہ سمجھ کر کسی فلمی ہیرو کی طرح رومانوی سین فلمانے اس کے پیچھے چل دیا تھا۔ اس نے غصہ سے آگ بگولا ہوکر جو مڑ کر دیکھا تو وہ ایک چڑیل جیسی نظر آنے لگی اور بھولا باچھا ایکدم سے جہاں تھا وہیں پتھر کا بت بن کر رک گیا۔ کیا کبھی آئینے میں دیکھی ہے اپنی شکل۔ چڑیل آنٹی نے کہا۔ اور بھولے باچھا کی جو شامت آئی تو وہ کہنے لگا ”آئینہ ہی تو دیکھ رہا ہوں” بھولے باچھا کا اتنا کہنا تھا اس پیکر غیظ وغضب کا ہاتھ اپنی ہیل والی جوتی کی جانب بڑھا اور اس نے بھولے باچھا کی یوں مرمت کردی جسے دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ کیوں پہنا کرتی ہیں یہ ناریاں اونچی ہیل والی جوتی۔ ویسے آئینے کا زیادہ تر استعمال اپنے آپ کو حسین سے حسین تر بنانے کیلئے ایسی ہی دلربائیں کیا کرتی ہیں۔ شائد اس لئے کہ ان پر کوئی دل و جان سے فریفتہ ہوسکے اور وہ اس کو کہہ سکیں کہ کیا تم نے کبھی آئینہ میں اپنی شکل دیکھی ہے۔ کہتے ہیں آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن ہم نے اس وقت ایک آئینہ کو
جھوٹ کہتا ہوں اور بے کھٹکے
سچ کہہ کر کون دار پہ لٹکے
دہرا دہرا کر کہتے سنا اور دیکھا ہے۔ جب کوئی بیوٹی پارلر سے آکر اس کے سامنے آن کھڑاہو۔ یا پورے کا پورا بیوٹی پارلر لا کر اپنے چہرے کے سچ پر جھوٹ کا لیپ کرنے لگے۔ اپنے چہرے پر جھوٹ کا لیپ کرنے والی بھولے باچھا کی ستمگر حسینہ کی طرح کم ہوتی ہیں جو اپنے چاہنے والوں کو آئینہ دکھاتی پھریں۔ بہت بڑے بڑے مشن اور مقاصد ہوتے ہیں ان کے۔ جب وہ کسی سیاسی جلسے کے منظر نامہ میں اپنا حسن تمثال کیش کرنے آتی ہیں تو انہیں دیکھنے والے ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ اور ان کی حسین و جمیل اداؤں اور بھری جلسہ گاہ میں اڑتی ردائوں کے صدقے کرکٹ کے کھلنڈرے بھی وزیر اعظم بن جاتے ہیں جو آئینہ دیکھنے کی بجائے ایک آدھ حسینہ کے بل بوتے سیاسی دھمال کرنے والے شیشہ گروں کو آئینہ دکھانے لگتے ہیں۔ بڑے کام کی چیز ہے یہ آئینہ۔ سوچا کہ کیوں نہ آئینہ بیچنے کا شغل اپنایا جائے۔ لیکن جیسے ہم نے اپنی اس سوچ یا خیال خام کو عملی شکل دینی شروع کی تو بہت جلد یہ بات جان پائے کہ
کیا پوچھتے ہو حال میرے کاروبار کا
آئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں