p613 157

حکومت واپوزیشن سے مودبانہ درخواست

وزیراعظم عمران خان نے اپنے رفقا اور پی ٹی آئی کے ذمہ داران کو اپوزیشن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی بنانے کے حوالے سے گائیڈ لائن جاری کردی ہے ان کا کہنا ہے کہ اب اپوزیشن کو کوئی رعایت نہیں ملے گی۔اداروں کے خلاف بیانئے کا بھر پور جواب دیاجائے گا۔اُدھر متعدد وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے معاونین نے اپوزیشن کو بنارسی ٹھگوں کو ٹولہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج پر الزامات پر مبنی تقاریر نریندر مودی کے بیانیہ کی ترجمانی اور پاکستان کو پیچھے دھکیلنے کی سازش ہے حکومت جلسوں سے خوفزدہ نہیں وفاقی وزراء نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف قانون کے موقع پر بھی بلیک میل کرنے میں مصروف رہی اسے قومی وقار سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز ہیں حزب اختلاف کے گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے قیام اور اس کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔عدم برداشت سے عبارت مروجہ سیاست سے جمہوریت اور ملکی نظام کو کیا فائدہ پہنچے گا یا یہ کہ ماضی میں اس طرح کے رویوں کا نتیجہ کیا نکلا اس پر بحث اُٹھانے کی بجائے ارباب اختیار اور حزب اختلاف سے یہی درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ جوش میں ہوش کو قائم ودائم رکھیں۔اپوزیشن کو مزید کوئی رعایت نہیں ملے گی کے ضمن میں وزیراعظم کے اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ایک مشیر کا کہنا تھا کہ اب اپوزیشن لیڈر کے لئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوں گے۔غیر منتخب مشیرغالباً اس امر سے لاعلم ہیں کہ کسی مقدمہ میں گرفتار رکن پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر سپیکر یا سینیٹ کا چیئر مین جاری کر تا ہے حکومت یا وزراء نہیں مشیر موصوف نے اپنی وضاحت کے ذریعے حکومت کی خدمت نہیں بلکہ اپوزیشن کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ پارلیمان کے منتخب ایوانوں کو اس کے کسٹوڈین نہیں بلکہ کوئی اور چلا رہا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ سیاسی عمل اور نظام ہر دو ہمیشہ اس امر کے متقاضی رہے اور ہیں کہ دونوں کو آگے بڑھانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کا مساوی کردار ہے کسی ایک فریق کا”کٹی”کر کے بیٹھ جانا عدم برداشت کو پروان چڑھانے میں معاون بنتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں ابھی جمہوریت نے ڈھنگ سے چلنا ہی نہیں سیکھا عدم برداشت سے زیادہ برداشت اور جمہوری اقدار پر عمل کی ضرورت ہے۔جارحانہ حکمت عملی کے لئے گائیڈ لائن اور سنگین الزامات کی تکرار سے مسائل بڑھیں گے۔بڑی مشکل سے سیاسی عمل پچھلی صدی کی آخری دودہائیوں کے چُنگل سے نکلا تھا۔ماضی کے حکمران جماعتوں نے شعوری طور پر اس امر کا ادراک کیا کہ سیاست ذاتی نفرت،بغض اور عداوت پر نہیں جمہوری رویوں اور عوام کے حالات بہتر بنانے کے لئے بھر پور اقدامات سے آگے بڑھتی ہے۔غور طلب امر یہ ہے کہ کیا حکومت اور حکمران جماعت سیاسی اقدار کی بجائے مخالف فریق کے وجود سے انکار کو اہمیت دیتے ہیں؟۔یہاں یہ عرض کرنا بھی از بس ضروری ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے پر تنقید کرتے وقت الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتا کریں سطحی انداز تکلم اور عامیانہ الفاظ کا استعمال کسی بھی طور درست نہیں۔اپنی پالیسیوں اور معاملات کا دفاع حکومتی اکابرین اور حکمران اتحاد کا حق ہے اسی طرح اپوزیشن کا بھی یہ سیاسی جمہوری اور آئینی حق ہے کہ وہ متبادل بیانیہ عوام کے سامنے رکھے۔بہت افسوس کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی کارکردگی سے مسائل کا شکار عام شہری مایوس ہوا ہے۔عوام الناس ووٹ کے ذریعے قیادت کا چنائو اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں درپیش مسائل کا تدارک ہو تعمیر وترقی کے نئے دروازے کھلیں۔بد قسمتی سے یہاں”میں اور تو”کی نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے اور بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ نہیں دی جارہی ۔مسائل ہیں کہ دن بدن گھمبیر ہوتے چلے جارہے ہیں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے غربت اور بیروزگاری میں پچھلے8ماہ کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ارباب اختیار کو بطورخاص یہ سمجھنا ہوگا کہ لنگر خانے اور وقتی اقدامات مسائل کا حل نہیں بلکہ ٹھوس حکمت عملی اور قابل عمل پالیسیوں کے ذریعے ہی شہریوں کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔اس امر پر بھی دو آراء نہیں کہ احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیئے البتہ یہ سوال اہم ہے کہ احتساب یکطرفہ کیوں۔جن بعض حکومتی شخصیات کے خلاف کیسز ہیں ان کے حوالے سے نیب نے اب تک کیا کیا؟۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ احتساب کے عمل کے یکطرفہ تاثر نے ہی عدم اعتماد کی خلیج وسیع کی ہے۔جناب وزیراعظم22سال تک بلا امتیاز احتساب کے نعرہ پر جدوجہد کرتے رہے عوام ان سے یہی توقع کرتے ہیں کہ امتیاز بلا تاخیر اور بلا امتیاز ہو۔ثانیاً یہ کہ انہیں(وزیراعظم کو)اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات اور جلوسوں پر غصہ کرنے کی ضرورت نہیں حزب اختلاف تو یہی چاہے گی کہ حکومت اصل فرائض سے ہٹ کر اس سے اُلجھ جائے اور اس کا بیانیہ مضبوط ہو۔یہ تو حکمران قیادت کے سیاسی شعور اور اہلیت کے امتحان کا وقت ہے وہ اپوزیشن کے دائو میں آنے کی بجائے اپنے حقیقی فرائض پر توجہ دے روزمرہ کے مسائل کی سنگینی کو کم کرنے کی حکومت عملی وضع کرے۔امید واثق ہے کہ جناب وزیراعظم اپنے وزراء اور مشیروں کو بھی ہدایت کریں گے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ مرکوز کریں تاکہ کارکردگی بہتر ہو اور عوام ماضی کے ادوار اور موجودہ دور کے حالات بارے آزادانہ رائے قائم کرسکیں۔عوام میں مثبت رائے تبھی قائم اور برقرار رہ سکتی ہے جب انہیں یہ احساس ہوگا کہ حکومت کو نہ صرف ان کے مسائل ومشکلات کا احساس ہے بلکہ وہ تمام تر وسائل بروئے کار لائے ہوئے ان سے نجات دلانے کے لئے سنجیدہ ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟