p613 159

الزام تراشی کی سیاست کب تک؟

وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ اداروںکولڑانے کی سازش ہوئی ،اپوزیشن کو معلوم نہیں وہ کس آگ سے کھیل رہی ہے،بلاول نے اپنے قدسے بڑی باتیں کیں،مریم نواز خودکو بینظیر سمجھ رہی ہیں۔ شبلی فراز نے کہا کہ احتساب کے خوف نے بنارسی ٹھگوں کومتحدکردیا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے سیاست اب اس کو سمجھ لیا ہے کہ ایک دوسرے کیخلاف سوچے سمجھے بغیر بیانات داغے جائیں۔ اس کی آگ اداروں کی دامن تک پہنچتی ہے یا پھرادارے آمنے سامنے آجاتے ہیں اس سے ہر دوطرف کے سیاسی عناصر کو کوئی سروکار نہیں۔ اداروں کو لڑانے کی سازشیں اور آگ سے کھیلنے کا عمل اگر یکطرفہ ہوتا تو اس کا ادراک ہوسکتا تھا اور یہ اتنی تشویشناک بات نہ ہوتی۔ یہاں تو اداروں کو سیاسی مقاصد کیلئے داؤ پر لگانے کا دوطرفہ عمل جاری ہے۔ جس میں اس بات میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ابتداء کس نے کی، کہاں سے ہوئی، کس کا کیا کردار تھا اور اصل واقعہ کیا تھا۔ عوام تک بات مبہم اطلاع کے طور پر پہنچتی ہے اور ہر کوئی اپنی دانست کے مطابق اس سے نتیجہ اخذ کررہا ہوتا ہے۔ اصل حقائق کی پوشیدگی اور عوام کو حقیقی صورتحال سے لاعلم رکھنا ابہام اور تشویش کا باعث امر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں سیاستدانوں کو ایک دوسرے کا قد ناپنے او ر ایک دوسرے کے لباس اور انداز کو زیربحث لانے کی بجائے سنجیدہ اور متین انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے، تنقید وتنقیص مدلل اور حقائق کی روشنی میں کی جائے اور ایک دوسرے کی ذات کی بجائے ایک دوسرے کی پالیسیوں اور سیاست کو موضوع بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ سیاسی درجہ حرارت میںکمی لانے کی کوشش حکومت کے مفاد میں ہے مگر کسی طور اس پر توجہ نظر نہیں آتی۔بہتر ہوگا کہ سیاسی معاملات سڑکوں کی بجائے ایوان اور باہم مل بیٹھ کر حل کئے جائیں تاکہ مشکلات کا شکار عوام کے مسائل میں مزید اضافہ نہ ہو۔
عوام پر ایک اور بجلی بم
نیپرا کا اس کے علاوہ شاید ہی کوئی کردار ہوگا کہ ایک تسلسل کیساتھ بجلی کی قیمتوںمیں اضافے کی سفارشات تیار کرتی ہے، حال ہی میں وزیراعظم نے اس کی سمری مسترد کرکے بجلی کی قیمتوں کو برقرار رکھا تھا لیکن بجلی کی قیمتوں میں ماضی بہ مؤثر اضافہ لاگو کر دیا گیا تھا پچیس ستمبر سے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ایک روپے پینسٹھ پیسے کا اضافہ کرلیا گیا تھا، اب ایک مرتبہ پھر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مطابق سینٹرل پاورپرچیزنگ ایجنسی نے ستمبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی درخواست دی ہے جس کے تحت فی یونٹ بجلی ایک روپیہ 36 پیسے مہنگی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔یہ بات کوئی عوام کو بھی سمجھا دے کہ جو بل وہ ستمبر 2020تک ادا کر چکے وہ حساب تو بے باق ہو چکا۔ اب نیا بل کیوں؟ بہرحال قانون بنانے والے اور نافذ کرنے والے سب ملکر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ہی کو منافع پہنچانے پر تلے ہوئے ہوں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ جو بل صارفین ادا کر چکے ہیں اس میں مزید اضافہ کر کے وصولی اب وتیرہ بن چکا ہے جس کی نیپرا کھلے دل سے منظوری دیتی ہے اور حکومت چوں وچرا نہیں کرتی، یوں صارفین سے پرانے کھاتے میں بھی وصولی ہوتی ہے اور بجلی کی قیمتوں میں نیا اضافہ تو ہوتا ہی ہے اور بجلی کی قیمتوں میں نیا اضافہ تو اب ہر ماہ کا معمول بن چکا ہے۔ حال ہی میں ایک ماہ میں دو مرتبہ بھی ایسا ہوا جو باعث تعجب امر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی صورت میں بہرحال مؤثر بہ ماضی رقوم کا حصول یا بل وصول کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے یہ جائزہ کون لے گا کہ کس نے کب فیول استعمال کرکے بجلی تیار کی ہے، کب پانی سے اور کب گیس سے بجلی تیار کی گئی ہے، ان سب کی ایڈجسٹمنٹ بھی تو کی جائے۔ گیس اور پیٹرولیم کمپنیوں کو پیسے ادا ہی نہیں ہوتے تو عوام سے کیوں لئے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کو کسی منزل پر تو روکنا ہوگا، آخر عوام کب تک اربوں روپے اضافی ادائیگی کے متحمل ہوسکیں گے اور حکومت کو کب رحم آئے گی۔
ملاوٹ شدہ دودھ کی کھلے عام فروخت
پشاور ہائیکورٹ نے ملاوٹ شدہ دودھ کا کاروبار کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو اس طرح کا دودھ مارکیٹ میں لا رہے ہیں، ایسے لوگ جو دودھ کے نام پر زہر تقسیم کر رہے ہیں کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انسانی صحت کیساتھ کھیلنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ سترہ مختلف کیمکلز کو ملا کر جعلی دودھ بنانے والوں کیخلاف بساط بھر کارروائی کے باوجود پورے صوبے میں مضر صحت دودھ کا کاروبار جاری ہے۔ سرکاری اداروں کی ناکامی کے بعد اب کوئی ایسا آسان طریقہ وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ عوامی سطح پر دودھ کا معیار چیک کیا جاسکے یا پھر دودھ کی سپلائی سے قبل دودھ کو چیک کرانے کے بعد سپلائی کا طریقہ اپنایا جائے اس کے بعد جس دوکان سے مضرصحت دودھ کی فروخت ہو اس دکان کو سرے سے سربمہر کر دیا جائے، کم از کم پنجاب اور بڑے شہروں سے لانے والے دودھ کو راستے میں چیکنگ کے بغیر مارکیٹ میںلانے نہ دیا جائے۔ اس دودھ فروش کیساتھ ساتھ اسے دودھ سپلائی کرنے والوں کیخلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔ خوراک کے معیار کے حوالے سے قائم کئی محکمے اگر اپنی اپنی سطح پر فعالیت کا مظاہرہ کریں تو اس سنگین مسئلہ پر قابو نہ بھی پایا جاسکے تو کم ازکم بہتری ضرور ممکن ہوگی۔

مزید پڑھیں:  واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے