4 208

سیاست سے ہٹ کر

پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہر جگہ سیاست ہی موضوع بحث بنی ہوئی ہے’ اپوزیشن سے شروع ہونے والی بحثت کی تان حکومت پر آ کر ٹوٹتی ہے’ حالانکہ سیاست سے ہٹ کر سماج کے متعدد مسائل ہیں’ جن پر حکومت واپوزیشن کی جانب سے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ کیا حکومت واپوزیشن کے پاس ان سماجی مسائل کیلئے کچھ وقت ہے؟ صحت مند سرگرمیاں کسی بھی سماج بالخصوص نوجوانوں کیلئے لازمی کا درجہ رکھتی ہیں لیکن ہمارے سماج میں تفریحی سرگرمیوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں’ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی کامیابی وکامرانی میں نوجوان نسل کا اہم کردار ہوتا ہے’ سیاسی، مذہبی، لسانی’ قومی اور دیگر تحریکیں نوجوان نسل کی حمایت سے ہی کامیاب ومقبول ہوتی ہیں’ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ صحت مند اور تفریحی سرگرمیوں کا انسانی مزاج پر اہم اثر مرتب ہوتا ہے، کیونکہ صحت مند سرگرمیاں انسانی دماغ کے ان حصوں میں تبدیلی لانے کا باعث بنتی ہیں جو ذہنی تناؤ اور بے چینی جیسی کیفیات کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ ارباب اختیار اور سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا نوجوان سماج میں صحت مند سرگرمیوں اور تفریح کے مواقع نہ ہونے کے باعث شرپسند عناصر کا آلہ کار بن رہا ہے۔ منشیات کی طرف مائل ہونے والے نوجوانوں کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سماج میں موجود فکری انتشار اور ثقافتی گھٹن کی بڑی وجہ صحت مند علمی’ مکالماتی اور سماجی سرگرمیوں کا فقدان اور فنون لطیفہ سے دوری ہے۔ بنظرغائر دیکھا جائے تو آج قیادت کا بحران صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں بلکہ یہ بحران زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے’ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اچھے ماہرین پیدا کرنے میں ہماری ناکامی کی وجہ بھی نئی نسل کی قائدانہ صلاحیتوں کی شناخت’ اعترافات وفروغ میں ہمارا معاندانہ رویہ ہے، آج کے سماجی، سیاسی، معاشرتی اور تعلیمی مسائل کے پیش نظر طلباء میں قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری بے حد اہم ہے، طلباء میں قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ میں معاون مشاغل اور سرگرمیوں کو شامل نصاب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج کے ماحول میں طلباء کو کسی حد تک تعلیمی سرگرمیاں تو مہیا کی جا رہی ہیں لیکن غیرنصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں’ اس کا نقصان بچوں کی نشو ونما اور گروتھ پر ہو رہا ہے۔ چند دہائیاں قبل اسکول وکالج اور یونیورسٹیوں میں کھیل اور غیرنصابی سرگرمیاں طلباء کیلئے بہت اہم ہوتی تھیں لیکن جب سے انٹرنیٹ آیا ہے غیرنصابی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں جو نئی آبادیاںبن رہی ہیں ان میں گراؤنڈ کیلئے جگہ مختص نہیں ہوتی، بہت چھوٹا سا پارک ہوتا ہے جبکہ گنجان آباد علاقوں اور چھوٹی سوسائٹیوں میں وہ بھی نہیں ہوتا’ چند سال پہلے تک یہ ہوتا تھا کہ اگر محلے میں گراؤنڈ کی سہولت نہ ہوتی تو اسکول میں گراؤنڈ کی سہولت بہرصورت میسر ہوتی تھی، بچوں کو غیرنصابی سرگرمیوں کیلئے اسکول میں مواقع میسر آجاتے تھے لیکن اب جبکہ سکول ہی کرائے کی مختصر سی بلڈنگوں میں بننے لگے ہیں تو اسکولوں میں بھی طلباء کیلئے گراؤنڈ کی سہولت نہیں رہی۔ اس کا منفی اثر طلباء کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک صحت مند وتفریحی سرگرمی میں شامل ہونے کا موقع ملا، مجھے اس تفریحی سرگرمی میں شرکت سے اندازہ ہوا کہ ہماری نسل کو ایسی ہی سرگرمیوں کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی سماج میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کا انحصار انفرادی آزادی’ صحت مند مقابلے، آزادی اظہار اور باہمی برداشت کی وسعت پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں انہی عوامل کی کمیابی کے باعث جدت پسندی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں میں پائی جانے والی تخلیقی اور جدت پسندانہ سوچ کے حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ ”یہ سچ ہے کہ پاکستان میں نئی نسل میں بالعموم جدت پسندی کم ہی ہے، البتہ قبائلی علاقوں کے رہائشی کچھ لوگ، جنہوں نے بڑی تکلیفیں اور مصیبتیں دیکھی ہوتی ہیں، ان میں ایسی سوچ اور جذبہ کچھ زیادہ نظر آتا ہے، ڈاکٹر قبلہ ایاز جن نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا اشارہ کر رہے ہیں اگر دیکھا جائے تو قبائلی علاقوں میں شہروں کی نسبت صحت مند سرگرمیوں کیلئے جگہ اور مواقع زیادہ موجود ہیں۔ اسی طرح جو طالب علم کیڈٹ کالج میں زیرتعلیم ہوتے ہیں ان کی جسمانی صحت دیگر طالب علموں کی نسبت بہتر ہوتی ہے کیونکہ کیڈٹ کالج میں طلباء کیلئے غیرنصابی سرگرمیوں کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ تعلیمی ضروریات اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی وقت کا اہم تقاضا ہے، جس کیلئے حکومت کو خاطرخواہ اقدامات اُٹھانے چاہئے تاہم غیرنصابی مگر صحت مند سرگرمیوں کے مواقع نہ ہونے کے باعث اکثر والدین اپنے بچوں کیلئے پریشان دکھائی دیتے ہیں، اس لئے حکومت کو غیرنصابی سرگرمیوں کیلئے وسائل اور مواقع فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟