tanveer ahmad 24

کرونا ایس او پیز اور شادی ہال

حضرت انسان کا مطالعہ بڑا دلچسپ بھی ہے اور عبرت ناک بھی! خالق کائنات کا یہ شاہکار بہت سے ایسے کام کرتا ہے جو اس کے مفاد میں نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے آپ کو راہ راست پر سمجھتا ہے یوں کہیے ہم اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کرتے ہیں ! عادتیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی ! اچھی عادتیں یقینا فائدے کا باعث ہوتی ہیں اور بری عادتوںسے ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیںکہتے ہیں عادات شروع میں مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہوتی ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ لوہے کے تاروں کی طرح مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں پھر ان سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے !ہمارے رسم ورواج بھی ہمارے مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں یہ ایسی عادتوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں نظر انداز کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے !آج کل کرونا کے حوالے سے یہ خبریں بڑے تواتر کے ساتھ آرہی ہیں کہ یہ آہستہ آہستہ پھر سر اٹھا رہا ہے اور اب بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے تعلیمی اداروں میں ایس او پیز کو نظرانداز کرنا ہمارے حق میں یقینا مہلک ہے ان اداروں سے وابستہ بہت سے افراد کے ٹیسٹ پازیٹو آرہے ہیں ! ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اپنا خیال بھی رکھیں اور دوسروں کا بھی ! اب سردی تقریباً شروع ہوچکی ہے اور ساتھ ہی شادیوں کا موسم بھی عروج پر ہے شادی ہالوں میں بھی ایس او پیز کا بہت زیادہ خیال رکھنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن کس کو کہہ رہے ہیں ؟ اس حوالے سے سنجیدہ رویہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے !کرونا سے بچنے کے لیے جو ہدایات دی جاتی ہیں ان میں ہم سب کا جانی اور مالی فائدہ ہے !شادی کی تقریبات میں بہت زیادہ لوگوں کو مدعو کرنے سے منع کیا جاتا ہے کم لوگ ہوں تو سارے کام باآسانی ہوجاتے ہیں اس میں کفایت شعاری کے تقاضے بھی پورے ہوجاتے ہیں اور بندہ بہت سے غیر ضروری بکھیڑوں سے بچ جاتا ہے مگر ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ یہی ہے کہ ولیمہ ہو یا بارات کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے اور اتنے بڑے ہجوم میں معانقے اور مصافحے بھی ہورہے ہوتے ہیں اسی طرح ماسک کا استعمال بھی بہت کم دیکھنے میں آتا ہے !ہماری ناعاقبت اندیشی کا اندازہ اس سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ چلیں کرونا کا بہانہ ہی سہی اگر شادی سادگی سے کی جائے تو اس میں سب کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں !شادی ہال دس بجے بند کردینے کی ہدایات دی جاتی ہیں لوگوں کو بار بار کہا جاتا ہے کہ وقت پر تشریف لائیں ہم نے ان دنوں بہت سی ایسی شادیوں میں شرکت کی ہے جن میں رات ساڑھے آٹھ بجے کھانا دے دیا جاتا ہے اور دس بجنے سے پہلے ہی تقریب کا اختتام ہوجاتاہے اس میں کتنی سہولت ہے بچوں نے صبح سکول جانا ہوتا ہے وہ رات کو شادی بیاہ کے ہنگامے سے جلد فارغ ہوجاتے ہیں تو صبح بیدار ہونے میں آسانی ہوتی ہے لیکن اب بھی بہت سے شادی ہالوں میںان اوقات کی پابندی نہیں کی جاتی رات گئے تک کھانا چلتا رہتا ہے ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کے ذمہ دار دور دور تک نظر نہیں آتے ! شاید یہاں بھی مک مکا والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے !کرونا ہمیں پھر سے تقریبات میں سادگی اختیار کرنے پر مجبور کررہا ہے اب شادی سے پہلے کی رسمیں مہندی وغیر ہ گھر پر ہونے لگی ہیں صرف بارات اور ولیمے کے لیے شادی ہالوں کی بکنگ کروائی جاتی ہے !کل رات ہم ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ بارات آٹھ بجے شادی ہال پہنچ گئی نکاح خوانی کے انتظامات پہلے سے مکمل تھے نکاح رجسٹرار اپنے فارمز سنبھالے بالکل تیار تھے سب سے پہلے نکاح پڑھا یا گیا ساتھ ہی کھانا شروع ہوگیا رات دس بجے تک مہمان کھانا کھا کر فارغ ہوچکے تھے رخصتی سے پہلے کی رسومات میں حوا کی بیٹیوں کا ہی عمل دخل ہوتا ہے لیکن خیر سے یہ مرحلہ بھی بخیر و خوبی طے ہوہی گیا ! کرونا سے پہلے رات کے دو بج جایا کرتے تھے !جب کرونا عروج پر تھا شادی ہال بند تھے تو کچھ لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے بڑی سادگی سے اپنے گھروں میں بچوں، بچیوں کی شادی کے فریضے سے سبکدوش ہوگئے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور شادیوں کی تقریبات کرونا کے ختم ہونے اور شادی ہالوں کے دوبارہ کھلنے تک ملتوی کردیں اب شادی ہال پھر سے آباد ہوگئے ہیں شادیوں کا رکا ہواسلسلہ بھی پھر سے شروع ہوچکا ہے !کرونا سب کے لیے تھا لیکن لوگوں نے اپنی سوچ یا اپنی عادت کے مطابق اپنے رویوں کا اظہار کیا ! سمجھداری کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم واپس سادگی کی طرف لوٹ آئیں بہت سے آسان کام ہم نے غیر ضروری رسم ورواج کی وجہ سے اپنے لیے بہت زیادہ مشکل بنا دیے ہیں !کہتے ہیں اگر کوئی کمی ہوگئی تو ناک کٹ جائے گی اس جھوٹ موٹ کی عزت یا ناک کو بچانے کے لیے ہمارا درمیانہ طبقہ یقینا بہت سی مشکلا ت کا شکار ہے بچوں کی شادی کے لیے بڑے بڑے قرضے لیے جاتے ہیں جنہیں اتارتے اتارتے کئی سال بیت جاتے ہیں ! اخلاقی جرات سے کام لیا جائے تو بہت سے مسئلے حل ہوسکتے ہیں اوراگر کسی میں اخلاقی جرات بھی نہ ہوتو کرونا وائرس کو ایک بہانہ تو بنایا جاسکتا ہے لیکن بہت سے لوگوں میں یہ جرات بھی نہیں ہوتی!۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے