p613 161

افغانستان میں قیام امن کے خلاف سازشیں

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دو بم دھماکوں میں مجموعی طور پر 27افراد جاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں’ کابل کے علاقے دشت برچی میں واقع جس تعلیمی مرکز کوحملے کا نشانہ بنایا گیا ہے وہاں پر اکثریت شیعہ طلباء کی ہے۔واضح رہے اس دہشت گرد حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے جبکہ طالبان نے بھی اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے کئی کامیاب ادوار کے بعد افغانستان میں قیام امن کیلئے بین الافغان مذاکرات آخری مراحل میںہیں’ امریکہ نے افغانستان کی مقامی قیادت کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ باہم گفت و شنید سے اندرونی مسائل پرقابو پائیں تاکہ افغانستان سے امریکی افواج کی رخصتی یقینی بنائی جا سکے’ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ قوتیں افغانستان میں امن نہیں چاہتی ہیں ‘ وہ بھارت کے علاوہ کوئی اور ملک نہیںہو سکتا کیونکہ اگر افغانستان میں حالیہ بم دھماکوںکی ٹائمنگ چیک کریں تو اندازہ ہو گا کہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار پاکستان کا کامیاب دورہ کر کے گئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بھارت کو افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششوں پر اعتراف ہے بلکہ وہ کسی صورت افغانستان میں امن نہیں چاہتا ہے ، افغانستان میں خانہ جنگی کی کیفیت بھارت کو اپنے مفاد میںدکھائی دیتی ہے کیونکہ ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر وہ پاکستان میں بدامنی کے اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے ۔ افغانستان میں بھارت کے درجنوں قونصل خانوں کے پس پردہ بھی یہی مقاصدکارفرما ہیں ۔ جب طالبان افغانستان میں حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ امریکہ ان حملوں کی تحقیقات کرائے تاکہ افغانستان میں حقیقی معنوں میں امن قائم ہو سکے۔
مفت علاج کیلئے اہم منصوبہ
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے آئندہ سال جنوری تک پورے صوبے میں مفت علاج کی سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے’ وزیر اعلیٰ نے مہنگائی کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے کہاکہ بہت جلد اس پر قابو پا لیا جائے گا ۔ علاج اور تعلیم کا شمار بنیادی ضروریات زندگی میں ہوتا ہے’ مہذب معاشروں میں تمام شہریوں کو بلا تفریق علاج اور تعلیم کی مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔ اگر صوبائی حکومت بھی صوبے کے عوام کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ لارہی ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے ، صوبائی حکومت کے اس اقدام سے غریب اور نادار بالخصوص مہلک امراض میں مبتلا افراد بھی علاج کی سہولیات سے مستفید ہو سکیں گے اور علاج کی سکت نہ رکھنے والے مریضوں کے لواحقین کو اپنے پیاروں کو تکلیف میں دیکھنے کی اذیت سے دوچار نہیںہونا پڑے گا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے فی گھرانہ کیلئے 10لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت رکھی گئی ہے۔ صحت سہولت پروگرام کے تحت کارڈز جاری کیے جائیں گے اور اس کارڈ کودکھا کر شہری اپنی مرضی کے ہسپتال سے علاج کراسکیں گے ، کیونکہ اس صحت سہولت کارڈکے پینل پر متعدد سرکاری اور نجی ہسپتال ہیں ، صوبائی حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اس اقدام کا جہاں شہریوں کو فائدہ ہو گا اس کے ساتھ ہی سرکاری ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ بھی کم ہو گا جس کے بعد سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی بھی بہتر ہو جائے گی ۔
جوابی جلسوں سے گریز کی ضرورت
اپوزیشن کے اتحاد ( پی ڈی ایم ) کے ردعمل میں حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ مشترکہ جلسوں کا عندیہ دیا ہے ‘ وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ کورونا ختم ہو گا تو پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم مل کر بڑا جلسہ کر کے دکھائے گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف ملک کے بڑے شہروں میں جلسے کر رہی ہیں’ جلسوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد میں دھرنے کا عندیہ بھی دے رکھا ہے’ ایسی صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت کی طرف سے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی لیکن حکومت کی طرف سے جوابی جلسوں کا اعلان اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تصادم کے خطرات اور خدشات میں اضافہ ہو جائے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات جس کشیدگی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ حکومتی سطح پر بالغ نظری کا مظاہرہ کیا جائے اور معاملات کو اس سطح پر لے جانے سے گریز کیا جائے کہ جس نہج پر ملک و قوم اور معیشت کا نقصان ہونے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ پاکستان کی معیشت کو پہلے ہی سہارے کی ضرورت ہے، اگر اپوزیشن اور حکومت آمنے سامنے آ گئیں تو پہلے سے تباہ حال معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا ۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جو معاملات جلسے جلوسوں اور سڑکوں پر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘ ان مسائل پر ایوان میں سنجیدہ گفتگو کی جائے اور بحث و مباحثہ کے بعد حل نکالنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہی جمہوریت کی روح ہے اور یہی طریقہ ملک و قوم کیلئے سود مند بھی ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟