3 220

دوگززمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

تابہ کے؟ یعنی آخر کب تک،خود کو بادشاہ سمجھنے والوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک دو ملکوں کو چھوڑ کر اب کہیں بھی بادشاہتیں برقرار نہیں ہیں، یہاں تک کہ جن ممالک میں بادشاہ یا ملکہ حکمران ہیں ان کی حیثیت بھی اب علامتی رہ گئی ہے کہ اب تو جمہوریت نے ان ملکوں میں اقدار کی صورت اختیار کر رکھی ہے اور یہ موروثی حکمران بھی صورتحال کو اس لئے قبول کئے ہوئے ہیں کہ اگر وہ قدیم طرز کی بادشاہت پر اب بھی اصرار کریں گے تو عین ممکن ہے کہ عوام ان کو بالکل ہی مسترد کر دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض جمہوری ملکوں میں حکمران خود کو بادشاہوں سے بھی آگے کی چیز سمجھ کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ بقول شاعر
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
قصور ان کا بھی نہیں ہوتا، ان کے گرد چاپلوسوں، کاسہ لیسوں اور خوشامدیوں کا ٹولہ انہیں جنگل کے اس جانور کی طرح یہ یقین دلاتے ہیں کہ شیر کی کیا حیثیت وہ طاقت اور جثے میں تم سے کہیں ہیٹھا ہے، بادشاہ تو تمہیں ہونا چاہئے مگر بالآخر اسے جب ہر طرف سے کانوں میں پڑنے والی آوازیں ”ہم تمہارے ساتھ ہیں” اس خودساختہ بادشاہ کو جنگل کے اصل مقتدر کے ایک ہی تھپڑ پڑنے سے دوبارہ سنائی نہیں دیتیں تو پھر اس کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ کھیل گزشتہ سات دہائیوں (کم وبیش) سے عوام دیکھ رہے ہیں، حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ برصغیر میں مغل دور کے آخری چند بادشاہوں کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو ان کی ”حکمرانی” کا بھرم بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے اور پھر آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ”حکمرانہ کسمپرسی” کی تو یہ حالت تھی کہ اس کے احکامات لال قلعہ کی چاردیوای کے اندر تک ہی ”قابل عمل” ہونے تک رہ گئے تھے جبکہ بادشاہ کے صاحبزادگان کو تب بھی یہ زعم تھا کہ وہ ہندوستان کی وسیع سلطنت کے وارث ہیں اور دلی میں دندناتے پھرتے تھے مگر ان کا جو حشر ہوا، تاریخ کے ذکر کو نوحہ گری کے انداز میں زندہ رکھے ہوئے ہے، بے چاروں کے کٹے ہوئے سر بادشاہ کی خدمت میں پیش کر کے رنگون رخصت کر دیا گیا تھا تو غریب الوطنی میں یوں گویا ہوئے
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کیلئے
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
مغلوں کے عروج کے زمانے میں اکبر کے نورتنوں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے ہر ایک ہیرے کے مانند تھا اور انہی کے مشوروں سے مغل دور کو عروج نصیب ہوا، ورنہ کہاں ایک نوسالہ شہزادہ اور کہاں برصغیر کے وسیع وعریض سلطنت کی شہنشاہیت، یہ آج کے دور کے حوالے سے گویا اکبر کا کچن کیبنٹ تھا، مگر ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ ہمارے ہاں کچن کیبنٹ کا استعارہ گزشتہ چند دہائیوں سے مستعمل ہے مگر ان کا کردار دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، یہ اپنے اپنے وقت کے ”بادشاہ” کو جس قم کے مشوروں سے نوازتے ہیں ان کے نتائج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ایسے بادشاہوں کا حشر بھی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہے ان مشوروں پر نازی جرمنی کے پروپیگنڈہ باز وزیر گوئبلز کے فکری فلسفے کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے جس کا نظریہ تھا کہ اس قدر جھوٹ بولو کہ سچ کے آنے تک گاؤں کے گاؤں ویران ہوچکے ہوں، گزشتہ کئی دہائیوں پر جب ایک ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو اسی فلسفے کے مظاہر اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں یہ گوئبلز ڈاکٹرائن آج بھی پوری شدت سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ سیاسی، سماجی اور دیگر شعبوں میں ”پروپگنڈہ” کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام نہ اس وقت بے وقوف تھے جب ایک زمینی خدا نے یہ کہہ کر اس پوری قوم کا مذاق اُڑایا تھا کہ ابھی یہ قوم ”نابالغ ہے اور جمہوریت ان کیلئے شجرممنوعہ ہے” یوں انہیں بنیادی جمہوریت کا لالی پاپ دیکر ورغلانے کی کوشش کی تھی حالانکہ بابائے قوم اور ان کے ساتھیوں نے برصغیر کی تقسیم کیلئے ہی جمہوریت کے ہتھیار کو استعمال کیا تھا، تب سے اس ملک پر طالع آزمائی کے منحوس سائے یوں مسلط ہوئے کہ جمہوریت اور آمریت میں آنکھ مچولی کا کھیل جاری رکھا گیاگویا جو ”بادشاہ” تھے ان کی حیثیت تاش کے پتوں والے بادشاہوں کی سی تھی جن کی طاقت تاش ہی کے ”اکے” کی مرہون منت ہوا کرتی تھی اور یہ ”اکےّ” پیچھے سے چال سیٹ کر کے شطرنج کی بساط پر سیاسی پیادو، گھوڑوں، ہاتھیوں سے لیکر وزیر تک کو ادھر سے ادھر کر کے ضرورت کے مطابق تب تک بادشاہ کو بچانے کی فکر کرتے جب تک اس کی ضرورت رہتی، وگرنہ شہ مات تو اس بساط کے بادشاہ کا مقدر ہی رہتا تھا۔سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے 23اکتوبر کو چھپنے والے ایک بیان نے سوچ کے کئی در وا کر دیئے ہیں جس پر ان دنوں گوئبلز کے فلسفیانہ موشگافیوں کا اطلاق ہورہا ہے، مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ ”حکومت اپوزیشن کے درمیان ہر محاذآرائی کے عمل میں فوج قطعی فریق نہیں، کراچی میں آئی جی کے حوالے سے واقعہ کا فوج کے سربراہ کی جانب سے لیا جانے والا نوٹس اور کورکمانڈر کو تحقیقات کی ہدایت کے بعد سب کھل کر سامنے آجائے گا”۔ اب صرف یہی دعا ہے کہ جو بیانیہ حاوی کیا جارہا ہے اس کا حشر قاضی عیسیٰ والے کیس جیسا نہ ہو جس نے شرمندگی کے نئے باب کھول دیئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟