4 210

منزل کی گم شدگی’عظیم خسارہ

اسلامی تاریخ شاندار واقعات سے بھری پڑی ہے، ہمارے اسلاف نے قرآن وسنت کے مطابق انفرادی واجتماعی زندگی کی تشکیل وتعمیر کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ اور ریاست وحکومت بنائی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ اُس زمانے کی اسلامی ریاست ومعاشرے کی ساری خوبیوں کو اگر ایک لفظ یا جملے میں سمیٹ کر بیان کرنے کو کہا جائے تو اس کا جواب ہوگا! اجتماعی عدل وانصاف، سوشل جسٹس۔ اجتماعی عدل وانصاف نے مسلمانوں کے معاشروں کو چارچاند لگا دیئے تھے اور تب تین براعظموں پر مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہوگئیں اور پھر ایک وقت آیا کہ اسلامی ریاستوں اور حکومتوں میں خوشآمد، چاپلوسی، میرٹ کے خلاف عہدوں ومناصب کی بندر بانٹ اور سب سے بڑھ کر آپس میں تعصبات، رقابتیں اور حسد نے اسلامی معاشروں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان مذموم ومسموم اعمال وافعال کے اثرات سے زندگی کا کوئی شعبہ محفوظ نہ رہ سکا اور یوں وہ شاندار منزل جو قرآن وسنت نے مسلمانان عالم کو قیامت تک کیلئے دی ہے نظروں سے اوجھل ہونے لگی جس کے نتیجے میں سپین میں مسلمانوں کی عظیم اور سات آٹھ صدیوں پر پھیلی شاندار دور حکومت یوں ختم ہوئی کہ وہاں ایک مسلمان باقی نہ رہا، اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہ تھی کہ مسلمان امراء اپنے اقتدار کو اپنی عیاشیوں کیلئے طول دینے کیلئے آپس میں سرپٹھول میں اس طرح لگ گئے کہ اپنے مسلمان بھائی پر فتح یابی کیلئے غیرمسلم قوتوں سے مدد حاصل کرنے کی درخواستیں کرنے سے بھی نہیں شرمائے اور پھر ایک دن غرناطہ کا آخری حکمران عبداللہ غرناطہ سے روتا ہوا رخصت ہوا۔ یہی حال بلکہ اس سے بھی بدتر بغداد کی عباسی حکومت کا ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا، عباسی دور کا آخری خلیفہ معتصم باللہ ہلاکوخان کے ہاتھوں جس بیدردی کیساتھ قتل ہوا اور اس کیساتھ معتصم کا وزیرخزانہ ابن علقمہ جس نے ہلاکوخان کو خزانے کی چابیاں اور خفیہ راز بتا دیئے تھے جس انجام سے دوچار ہوا وہ ہماری تاریخ کے عبرتناک واقعات میں شمار ہیں۔ تاریخ میں پڑھا ہے اور علماء واساتذہ سے سُنا ہے کہ عباسیوں کے اس آخری دور میں وہاں ہمارے تعلیمی اداروں ومدارس وغیرہ میں علماء کے درمیان یونانی فلسفوں کے جن پیچیدہ مگر بے سود مسائل پر معرکہ آراء بحث ومباحث کی مجلسیں گرم ہوتی تھیں اُن میں اسلامی تاریخ کے یہ مسائل بھی شامل تھے کہ حضرت عیسیٰ جب آسمانی دنیا کی طرف جارہے تھے تو آخری کھانے میں جو روٹی تناول فرمائی تھی، وہ پتیری تھی یا خمیری، کوے کے حلال وحرام ہونے پر بھی بحثیں ہوئی تھیں لیکن عباسی دور کے زوال کا بنیادی سبب عدل وانصاف کی عدم فراہمی تھی۔ بادشاہت کا نظام اس سبب سے گل سڑ چکا تھا، خلافت کو بادشاہت اور مطلق العنانیت کے نام پر بدنام کیا جا چکا تھا میرٹ، صلاحیت اور اہلیت کی بجائے درباری امراء اور اقراباء پروری کو خاص مقام حاصل تھا جس کے نتیجے میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل جیسے علماء وفقہا جیلوں میں سزا بھگتتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ بادشاہوں کے درباروں میں خوشامدیوں اور بادشاہ سلامت کی جان وصحت کے دوام کیلئے قسما قسم کے نسخے اور معجون تیار کرنے والے شامل ہو کر علماء حق اور صاحبان علم ودانش کو دور بھگانے پر مجبور کر چکے تھے جس کے نتیجے میں سلطنت کے عمال میں قابل لوگوں کی شدید کمی واقع ہوگئی۔ نتیجتاً امور مملکت ڈنگ ٹپاؤ لوگوں کے ہاتھوں چلنے لگے اور زوال کی طرف سفر تیز تر ہونے لگا۔ اپنی تاریخ کے ان واقعات کا مطالعہ کرتا ہوں تو وطن عزیزکی تاریخ سامنے آنے لگتی ہے۔ ہمارے اسلاف جو انگریز اور متعصب وانتہا پسند ہندو اشرافیہ کے ہاتھوں تنگ آچکے تھے، یہ خواہش لیکر پاکستان کی منزل کی طرف نکلے تھے کہ یہاں ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست ہوگی جو اسلامی دنیا کیلئے مثالی کردار کی حامل ہوگی لیکن کیا خبر تھی کہ ہم اپنی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے من وعن وہی کام کریں گے جس نے سپین کی عظیم اسلامی حکومتوں کا تیا پانچہ کیا تھا۔ صرف اکیس برس بعد بھارت مشرقی پاکستان کو مکتی باہنی کے ہاتھوں (جو اصل میں ہندوستانی افواج تھیں) بنگلہ دیش میں بدل گیا، خیال کیا جاتا تھا کہ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ آئندہ باقی ماندہ پاکستان میں جس کو ہمارے بعض زعماء نے نیا پاکستان قرار دیا اب آئین وقانون کی عمل داری ہوگی اور ہم سب ملکر اُس عظیم نقصان کی تلافی کرینگے۔ لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں ہم 1960ء کے عشرے کے حالات کی نسبت اور بھی سیاسی معاشی اور معاشرتی لحاظ سے ایسے تنزل کا شکار ہوئے کہ اب تو اپنی منزل جو قیام پاکستان کے وقت بہت واضح اور آنکھوں کے سامنے تھی گم سی ہونے لگی ہے۔ ہمیں آرمی چیف کی بات پر اعتماد ہے کہ یہاں بہت جلد سب اچھا ہوگا لیکن جب پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان کھینچا تانی صبح وشام دیکھنے کو ملتی ہے تو دل ڈوبنے لگتا ہے۔ کیپٹن(ر) صفدرکی گرفتاری ورہائی اور اب گزشتہ ایک ہفتے سے ہر شام چینلوں پر اس پر تبصرے کیا کسی ایسی قوم کی نشاندہی کرتی ہے جو اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو؟۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار