5 219

گلبدین حکمت یا ر کا دورہ پاکستان’ چند تجاویز

افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار پچھلے ہفتے پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کرکے اچھی یادوں کیساتھ واپس اپنے ملک چلے گئے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران حزب اسلامی افغانستان کے صدر نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے علاوہ صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان سالوں پر محیط سیاسی تناؤ کو کم کرنے اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے اپنی تجاویز سامنے رکھیں۔ اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے زیراہتمام ایک خصوصی ملاقات میں گلبدین حکمت یار نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ترکی اور خلیجی ممالک میں افغانستان کے سرمایہ کاروں نے مختلف سیکٹرز میں بیس ارب ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ انہوں نے پاکستانی حکومت سے کہا کہ اگر وہ افغان سرمایہ کاروں کو ویزے کی سہولت کیساتھ پاکستان میں جائیداد کی خریداری، بارڈر پر افغان سرمایہ کاروں کی آمد ورفت میں آسانی اور نقل وحمل کی شرائط میں نرمی پیدا کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ افغان سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان نہ لائیں یقینا پاکستان کیلئے یہ ایک بڑی خبر ہے۔ پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے انہی مشکل حالات میں اگر یہ سرمایہ پاکستان منتقل ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف وطن عزیز میں سرمایہ کاری ہوگی اور روزگار کے بے تحاشا امکانات پیدا ہونگے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستانی معیشت مستحکم ہوگی۔ افغانستان بلاشبہ ہمارے لئے ایک اچھی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان موجود سیاسی تناؤ اور امن وامان کی غیریقینی صورتحال کے باعث ہم مشترکہ سرمایہ کاری کے اہداف حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ہمارے اکثر قارئین کیلئے یہ بات یقینا باعث حیرت ہوگی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے کم ہوکر پانچ سو ملین ڈالر پر آچکا ہے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زاہد شنواری کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک کی جانب سے سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو اس حجم کو آٹھ ہزار ارب تک بڑھایا جاسکتا ہے جس سے ملک میں بالعموم اور خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع میں بالخصوص روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ 27220کلومیٹر پر محیط نئے ضم شدہ اضلاع قدرتی ذخائر سے مالامال ہیں، اسلام آباد میں ایک تحقیقی ادارے فاٹا ریسرچ سنٹر کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان کے تحصیل بویا کے مقام پر36000ملین ٹن کے قریب کاپر موجود ہے، ماہرین کے مطابق ہر ایک ٹن کے اندر تین سے پانچ کلو سونے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ضم شدہ اضلاع میں سیاحت کے میدان میں بھی افغان سرمایہ کاروں کیلئے کافی مواقع موجود ہیں۔ افغانستان کیساتھ معاشی میدان میں باہمی تعاون کا ایک مظہر خیبر پاس اکنامک کوریڈور بھی ہے۔ اسی پراجیکٹ کے تحت پاکستان کو طورخم کے راستے افغانستان کے ذریعے قدرتی ذخائر سے مالامال وسطی ایشیائی ممالک سے ملایا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے تقریبا ایک لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا اور کاروبار کے وسیع تر مواقع پیدا ہونگے۔ افغانستان کے اندر پشتو فلمیں بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے افغانستان کے سینما گھروں میں ہندوستان کی فلمیں پشتو ڈبنگ کیساتھ پیش کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں پشتو فلموں کا سرکٹ بہت چھوٹا ہے، اگر اس سرکٹ کو بڑھایا جائے تو مشترکہ فلمسازی کے ذریعے ثقافتی، مذہبی اور تاریخی طور پر جڑے ہمسایہ ممالک میں نہ صرف فلمی صنعت کو فروع ملے گا بلکہ اس کے ذریعے دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے اور قریب آسکیں گے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوسکے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے کئی دہائیوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی تعلقات کچھ اچھے نہیں رہے ہیں لیکن پچھلے چند ماہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تیزی سے بہتری آرہی ہے۔ گلبدین حکمت یار سے پہلے افغانستان کے سابق چیف ایگزیکٹیو اور موجودہ پیس کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھی پچھلے ماہ ایسی ہی خوبصورت یادوں اور نیک تمناؤں کیساتھ پاکستان کا کامیاب دورہ مکمل کرکے واپس وطن لوٹ گئے تھے۔ پاکستان نے اپنے اس عمل سے افغانستان کو واضح پیغام دیدیا کہ ذاتی پسند وناپسند سے بالاتر ہوکر افغانستان کی ساری سیاسی قیادت پاکستان کیلئے محترم اور قابل قدر ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ مذاکرات کی کامیابی میں پاکستان کے کردار کو نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا میں سراہا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان انہی کوششوں کو سراہتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی کی روش کو ترک کرکے سیاسی اور اقتصادی میدان میں مشترکہ کوششیں تیزکریں تاکہ اس خطے کے عوام کئی دہائیوں پر محیط جنگ کے خون آلود ماحول سے باہر آکر امن کی کھلی فضا میں سانس لے سکیں۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''