5 221

غالباً رسا چغتائی مرحوم نے کہا تھا کہ

اُردو تھا جس کا نام کوئی جانتا نہیں

انے کن جنگلوں سے درآئے
شہر تنقید میں لکڑ ہارے
یہ تنقید بے جا کرنے والوں سے برہمی کا اظہار ہے، کسی زمانے میں لوگ اپنی زبان کو صحت مند، شفاف لہجہ اور ادائیگی کا مٹھاس لبریز کرنے کی غرض سے ریڈیو اور اخبارات کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے تھے خاص کر زبان کی شائستگی کیلئے ریڈیو کی نشریات بھی ان کے معمول میں تھا کیونکہ ریڈیو میں ڈرامے کے مکالمے، رپورتاژ، ودیگر نشریات میں زبان کی ادائیگی کی صحت پر توجہ رکھی جاتی تھی لیکن جب سے ٹی وی در آیا تب سے ان کی زبان وبیان ایسا سوقیانہ ہو گیا ہے کہ زمین میں گڑ جانے کو جی کرتا ہے، ٹی وی والے خود کو فہم وفراست میں عنقا سمجھتے ہیں، اس میں جو رہی سہی کسر باقی تھی وہ جنرل ضیاء الحق کے سیکرٹری اطلاعات ونشریات نے یوں پوری کر دی کہ اہل ارباب ٹی وی کو ہدایت جاری کر دی کہ جس علاقے کا پروگرام ہو اس کا تلفظ مقامی ہو گاکہ عوام جان سکیں کہ کہاں کا لہجہ ہے۔ یہ دیوالیہ پن کی انتہاء ہے، اس کے بعد لب ولہجہ میں ایسا زوال آیا کہ اب تک کمبل کی طرح چمٹا ہوا ہے، گزشتہ رات ٹی وی چینل کے نیوز ریڈر نے کہا کہ گنوا دی، انہوں نے صرف اُردو پر یہ رحم کیا کہ حرف گ کو زیر سے ادا کیا جس سے مطلب ہوگیا کہ اتنی رقم شمار کرا دی جبکہ یہ کہنا تھا کہ ضائع کر دی گِنوانے کہا جبکہ صحیح لفظ گ پر زبر ہے، الفاظ کی ایسی چیرپھاڑ کوئی گنوار کر سکتا ہے۔ قوم کے نونہالوں کو علم دینے والے اپنے طلباء کو یہ فرق نہیں بتا سکے کہ درخواست میں یہ لکھنا آپ کا تابعدار شاگرد جس کا مطلب ہوا کہ اپنے استاد محترم کو اپنے تابع رکھنے والا شاگرد، تابعدار کا مطلب اسی طرح ہے جس طر ح تاجدار یعنی تاج رکھنے والا یا زمیندار یعنی زمین کا مالک۔ آب دار وغیرہ وغیرہ، سوچنے کی بات ہے کہ اُردو کیساتھ ایساسوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں برتا جا رہا ہے جبکہ اہل پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے، اس کو بھارت کی طرح دیس نکالا کیوں جا رہا ہے۔ بھارت کی حد تک بات سمجھ میں آتی ہے، وہ ایک مصنوعی زبان کو اس لئے فروغ دے رہے ہیں کہ سیکولر بنیاد پر آزاد ہونے والا بھارت اس لئے اُردو کی دشمنی میں پیش پیش ہے کہ اس میں عربی کے پچاسی فیصد الفاظ استعمال ہوتے ہیں حالانکہ اُردو وہ زبان ہے جس نے جنم ہی ہندوستان سے لیا۔ جب غیرملکیوں کے بازار لگتے تھے تو ہندو اور مسلمان ودیگر مذاہب کے لوگ ان بازاروں میں اپنا سودا بیچنے اور خریدنے جاتے تھے اور وہ ترکی یا فارسی سے نابلد تھے اور ہندوستانی زبانیں جن کو پراکرت کہا جاتا ہے جانتے سمجھتے تھے جس طرح آج نئی نسل اُردو میں انگریزی اور دیگر زبانوں کا زہر لب ولہجہ سمیت گھول رہی ہے اور اس طرح اُردو سے ہٹ کر ایک نئی زبان کو جنم دے رہی ہے۔ اُردو کبھی ہندوستان کی سرکاری زبان نہیں رہی، ہندی بھی سرکاری زبان نہیں رہی۔ مسلمان بادشاہوں کے دور میں اور انگریزوں کے ہندوستان پر قابض ہونے تک پورے ہندوستان کی زبان تو فارسی تھی اور عام بولی جاتی تھی، فارسی نے ہندوستان کو بڑے بڑے شاعر اور لکھاری دئیے اور جو شاعر فارسی میں شاعری نہیں کرتا تھا اس کو شاعر ہی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، شعراء کو دیگر زبانوں میں شاعری کرنے کے باوجود فارسی میں شاعری کرنا لازمی تھا، مرزا غالب کو اُردو زبان کا ممتاز شاعر کہا جاتا ہے لیکن نئی نسل کو یہ نہیں معلوم کہ وہ اپنی شاعری کی سند کیلئے اپنا فارسی کلام پیش کرتے تھے جس پر ان کو فخر تھا۔ بھارت سے اُردو کو دیش نکالا کیوں کیا گیا اس کی وجہ ان کی مسلمان دشمنی ہے حالانکہ ایک لمبی فہرست ہے ہندو شاعروں اور ناول نگاروں کی جس میں منشی پر یم چند، برج نرائن چکبست اور دیگر سینکڑوں مثالیں ہیں۔ اب آئیں اصل موضوع کی جانب کراچی میں جناب محمود اچکزئی نے بڑا دلفریب خطاب کیا، اس میں انہوں نے فرمایا بلکہ اُردو کو دھونس دی ہے وہ بھی اُردو زبان میں کہ اُردو کو مٹا دیں گے، ہم ایک روز جہاں سے۔ محترم محمود اچکزئی ایک قوم پرست اور بائیں بازو کے شیدائی لیڈر ہیں مگر سیاست میں انہوں نے ہمیشہ دائیں بازو کا ساتھ دیا جیسا کہ اب بھی دے رہے ہیں، گو پی ڈی ایم میں ترقی پسند، بائیں بازو کے عناصر کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے جن میں ترقی پسند اور سیکولرازم کی پشتون ثقافت کی دلدادہ اے این پی بھی ہے جو سترسال سے اس کیلئے جدوجہد کر رہی ہے، ایسی تڑی اس نے بھی نہیں لگائی۔ جب پاکستان میں اسے صوبہ کے پی میں پہلی مرتبہ جے یو آئی کے ساجھے کا اقتدار ملا تو اس کے زمانے میں اتنا ہوا کہ پبلک مقامات پر عوام کی رہنمائی کیلئے پشتو اور انگریزی میں بورڈ لگانے کا حکم ہوا، کسی جانب سے کوئی اعتراض نہ آیا اسی طرح ساجھے دار جے یو آئی کے مولانا فضل الرّحمان کے والد نیک سعید مفتی محمود جو اس وقت صوبے کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے ایک حکمنامے کے ذریعے صوبے کی سرکاری زبان پشتو قرار دی، شراب پر پابندی لگا دی، سرکاری ملازمین کیلئے شلوار قمیض، کوٹ اور شیروانی لازمی قرار دیدی تھی، موجودہ اے این پی جو شریک اقتدار تھی اس نے نہ کوئی احتجاج کیا اور نہ اتحاد سے لگ ہوئی۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں