p613 163

وزراء کی ایوان کی کارروائی میں عدم دلچسپی کا رویہ

خیبر پختونخوااسمبلی کے سپیکر مشتاق احمدغنی کا ایوان میں وزراء کی عدم حاضری سے برہمی کا اظہار کافی نہیں بلکہ بار بار کے اس مسئلے کے حل کیلئے انہیں حکومت سے بات کرنی چاہئے تاکہ ایوان میں حکومت کا مؤقف کمزور نہ ہو اور وزراء کارروائی میں بھرپور حصہ لیں، یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے، عوامی مفاد کا تقاضا بھی۔ حکومت کی ایوان میں بہتر نمائندگی سے ہی حزب اختلاف کے سوالوں واعتراضات کا جواب اور عوام کی نمائندگی کا حق اد ا کیا جا سکتا ہے۔ سپیکر نے صوبائی وزیر صحت کے ذریعے وزیراعلیٰ کو اس معاملے کا نوٹس لینے کا پیغام بھیجا ہے۔ اس کی نوبت نہیں آنی چاہئے تھی کہ سپیکر کو وزراء کی شکایت پر مجبور ہونا پڑے، یہ کبھی کبھار اور اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ ایوان کی کارروائی کو اکثر وبیشتر ثانوی حیثیت دی جاتی ہے جو ایوان کا وقار کم کرنے کے مترادف ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کو چاہئے کہ وہ سپیکر کی شکایت کا سختی سے نوٹس لیں اوراپنی کابینہ کے اراکین سے اس سلسلے میں استفسار کرنے کیساتھ ساتھ آئندہ حاضری اور اسمبلی کے اجلاس میں پوری تیاری کیساتھ شرکت کو یقینی بنانے کی سختی سے ہدایت کریں تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال کا اعادہ نہ ہو اور حکومت کو ایوان میں اپنے ہی اراکین اور خاص طور پر کابینہ کے اراکین کی وجہ سے سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بلاجواز احتجاج
بلدیاتی ملازمین کا صوبائی حکومت کی جانب سے کئے گئے تبادلوں کو مسترد کرنے پر ہڑتال بلاجواز اور ماحول کو خراب کرنے کا حامل امر ہے۔ملازمین کا تبادلہ انتظامیہ کا حق اور تبادلوں کو تسلیم کرنا ملازمین کی ذمہ داری اور نظم وضبط کا تقاضا ہے۔چند ایک تبادلوں پر تحفظات کے اظہار کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن سارے تبادلوں کو چیلنج کرنا نامناسب طرز عمل اور حکم عدولی ہے۔ اس طرح دبائو ڈال کر مرضی کی جگہ پرملازمین کے برقرار رہنے کے اصرار سے میونسپل ورکرز یونین کی جانب سے گزشتہ روز احتجاجاً علامتی طور پر ٹائون تھری دفتر کا گھیرائو کیا گیا، مذکورہ دفتر میں پشاور کے ریجنل میونسپل آفیسر کا دفتر ہے جنہوں نے چند روز کے دوران درجنوں بلدیاتی ملازمین کے تبادلوں کے احکامات جاری کئے تھے۔ احتجاج میں شریک ملازمین کا کہنا تھا کہ ٹائون ون، ٹو، تھری اور فور پشاور نے میونسپل ملازمین کے غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی جانبدارانہ تبادلوں کے حکم نامے جاری کئے جس میں نہ تو ملازمین کی سنیارٹی کا ذکرہے اور نہ ہی ان کی پنشن کمیوٹیشن ”ڈیتھ گرانٹ” انکیشمنٹ کی ادائیگی کا ذکر ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں میونسپل ملازمین کی نمائندہ سی بی اے یونین کو اعتماد میں لیا گیا ہے جس کی وجہ سے میونسپل ملازمین سراپا احتجاج ہیں کیونکہ اس غیرقانونی اور جانبدرانہ تبادلوں سے ملازمین کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے، وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکے ہیں، اس نااُمیدی اور تاریک مستقبل سے پریشان ملازمین کے پاس اب احتجا ج اور ہڑتالوں، تالابندیوں کے بغیر کوئی چارہ نہیں بچتا۔ احتجاج سے قبل آل پاکستان لوکل گورنمنٹ ورکرز فیڈریشن کے مرکزی صدر ملک محمد نوید اعوان کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کرتے ہوئے ریجنل میونسپل آفیسر کو اپنے احکامات واپس لینے کا7روزہ نوٹس جاری کر دیا گیا اور کہا گیا کہ اگر یہ احکامات واپس نہ لئے گئے تو ملازمین ہڑتال شروع کردیں گے۔ ملازمین سٹی ڈسٹرکٹ سمیت پشاور کے چاروں ٹاؤنز میں مکمل کام چھوڑ ہڑتال اور دفاتر کی تالہ بندی کریں گے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہی جگہوں پر ٹکے رہنے سے ان کے کون سے مفادات وابستہ ہیں۔ انتظامیہ کے فیصلے کے حوالے سے نظرثانی کی اپیل ہوسکتی ہے، نامناسب تبادلوں کو بات چیت کے ذریعے رکوایا جا سکتا ہے، عدالت سے رجوع کرنے کا راستہ کھلا ہے ان تمام طریقۂ کار کو ایک طرف رکھ کر احتجاج کا راستہ اپنانا اور دباؤ ڈالنا ہرگز قابل قبول طریقہ کار نہیں، جسے اختیار کرنے سے ملازمین کو گریز کرنا چاہئے اور احتجاج وہڑتال کی دھمکی واپس لینی چاہئے انتظامیہ کو بھی تبادلوں میں تحفظات کا غیرجانبداری سے جائزہ لیکر ممکنہ طور پر ملازمین کو متاثر ہونے سے بچانے کی سعی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول مکدر نہ ہو۔
چترال چکدرہ موٹروے بارے صائب تجویز
چترال چکدرہ موٹروے کو پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل کرنے کے سابق حکومت کے دعوے اور موجودہ حکومت پر منصوبہ کو نکالنے اور کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کے دونوں امور کی تردید ہوتی ہے۔ وفاقی سیکرٹری مواصلات کی تجویز سے اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ چترال چکدرہ موٹروے منصوبے کا حصہ ہی نہ تھا جسے اب شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں بھی اُٹھایا گیا تھا اور حکومت نے وضاحت بھی دی تھی کہ یہ منصوبہ نہیں نکالا گیا بلکہ یہ منصوبہ سی پیک میں شامل ہے۔ حزب اختلاف نے بھی اس پر سیاست چمکائی جو دیر اور چترال کے عوام کے جذبات سے کھیلے اور ان کو گمراہ کیا، بہرحال اس صورتحال سے قطع نظر چکدرہ چترال موٹروے اقتصادی راہداری کا ایک بہترین متبادل روٹ ہے، دفاعی نقطۂ نظر سے بھی اس روٹ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ چکدرہ چترال روڈ کو منصوبے میں شامل کرنے کے وفاقی سیکرٹری مواصلات کی تجویز پر اس حوالے سے جلد عملی اقدامات کئے جائیں گے اور منصوبے کے جملہ لوازمات مکمل کرکے اس کے تعمیراتی کام کا آغاز ہوگا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس اہم منصوبے پر سیاست کی بجائے منصوبے کی افادیت اور اس کی کامیابی پر زیادہ توجہ دی جائے گی تاکہ یہ منصوبہ جلد سے جلد شروع اور مکمل ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات