3 222

وزیراعلیٰ کی توجہ’ ناراض بیگم’ بند اے ٹی ایم اور گیس بندش

اس کالم میں آنے والی بیشتر شکایات اور مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کیلئے مطالبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارے مسائل کی حکومت براہ راست ذمہ داری نہیں بلکہ عوام کو شکایت سرکاری محکوں سے اور ان کی خراب کارکردگی سے درپیش ہیں مگر چونکہ محکموں اور نظامتوں اور نیم سرکاری اداروں سبھی کے مجموعے کا نام حکومت ہے اس لئے براہ راست ہو یا بالواسطہ یہ حکومت ہی کے کھاتے میں شمار ہوتے ہیں۔ حکومت کو جہاں وسائل اور فنڈز دیکر مسائل حل کرنے ہوتے ہیں اس میں تو حکومت کے پاس وسائل کی کمی اور مشکلات کی سمجھ آتی ہے مگر جہاں سرکاری عملے کی کارکردگی کو یقینی بنا کر لوگوں کے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں وہاں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کو اس کا نوٹس لیکر محکموں اور نظامتوں کی کارکردگی، پولیس پٹواری کی اصلاح اور نیم سرکاری اداروں کے سربراہوں کو کارکردگی بہتر بنانے کا ٹاسک حوالے کر کے ناقص کارکردگی پر انہی کو ذمہ دار گرداننا چاہئے تاکہ عوامی شکایات میں کمی آئے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا عوام کی شکایات اور مسائل کا نوٹس لینے کیلئے اگر ذرائع ابلاغ کے مختلف حصوں پر نظر ڈالنے کیلئے تھوڑا وقت روزانہ مختص کر کے شکایات کا نوٹس لینے اور تحقیقات کرانے کا سلسلہ شروع کریں تو سرکاری ملازمین میں احتساب اور جواب طلبی کا خوف پیدا ہوگا اور وہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور عوام کو شکایات کا موقع نہ دینے کی کوشش کریں گے۔ شکایات کی تحقیقات کرنے اور ان کا نوٹس لینے سے صحیح صورتحال کا علم ہوگا اور جائز شکایات پر کارروائی اور الزام تراشی کو نظرانداز کیا جاسکے گا۔ ضروری نہیں کہ سرکاری محکموں اور عملے کے بارے میں ملنے والی ہر شکایت درست ہو جب صحیح وغلط دونوں ہی کا نوٹس لیکر اصل صورتحال معلوم کی جائے گی تو بات بنے گی۔ میرے اس شکایتی نمبر پر بعض ایسے دلچسپ شکایات آتی ہیں کہ بتا نہیں سکتی، تفنن طبع کیلئے ایک شکایت لکھ رہی ہوں۔ ایک قاری نے نجانے مذاق میں یا پھر حقیقت میں شکایت کی ہے کہ ان کی بیگم صاحبہ تنخواہ ملنے کے دنوں میں تو ان سے بہت اچھی ہو جاتی ہیں تنخواہ ختم ہوتے ہی اچھائیاں بھی باقی نہیں رہتیں، ایک لمحے کیلئے سوچیں تو یہ میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ عزیز بھائی اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ میاں بیوی کے جھگڑے میں کبھی کسی فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہئے، وہ میاں بیوی ہیں ابھی لڑائی ابھی صلح اور سب ختم۔ بہرحال میں اس نصیحت کے برعکس اس امر کا جائزہ لیتی ہوں، میرے نزدیک یہ شکایت مذاق اور نظرانداز کرنے کا حامل معاملہ اس لئے نہیں کہ انسان کی معاشی ضروریات کے پورے ہونے یا نہ ہونے کا اس کے مزاج کے بگڑنے اور تعلقات کی بہتری اور خرابی میں بڑا عمل دخل ہے۔ جب بیوی کو گھر میں خرچے کی تنگی ہوگی بچوں کی فرمائشیں اور ضروریات پورے نہیں ہوں گے تو وہ فطری طور پر مغموم ہوگی، ان کی فکرمندی سے ان کی توجہ کا بٹنا فطری امر ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں گزارہ بہت مشکل ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں اس بات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ملازمین کو کم یا زیادہ ماہانہ تنخواہ تو ملتی ہے دیہاڑی داروں کی دیہاڑی نہ لگ جائے تو ان کے مسائل کا تصور کیجئے، بیروزگار افراد اور جن کا سرے سے کوئی ذریعہ آمدن نہیں ان کا سوچ کر ہی رحم آتا ہے۔
آج کا دوسرا برقی پیغام بھی اتفاق سے معاش ہی کے حوالے سے عمرزئی چارسدہ سے ایک بزرگ پنشنر نے بھیجا ہے۔ لکھا ہے کہ ان کے علاقے میں چار بنکوں کی برانچیں ہیں لیکن تین بنکوں کے اے ٹی ایمز اکثر بند یا خراب ہوتے ہیں یا بند رکھے جاتے ہیں، جس کے باعث علاقے میں حبیب بنک کے واحد اے ٹی ایم پر صارفین کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ سٹیٹ بنک کے حکام اس کا سختی سے نوٹس لیں تو معمر پنشنروں کا بھلا ہوگا۔ اس طرح کی شکایات اکثر لوگ کرتے رہتے ہیں، لگتا یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کی سپروائزری گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے یا پھر ان کے پاس اتنا عملہ ہی نہیں کہ وہ یہ ذمہ داری بنھائے۔ قومی بنکوں کے اعلیٰ حکام کو بھی عمرزئی میں اپنے اپنے بنکوں کی برانچوں میں عوام سے اس سلوک کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے، پنشنر بیچارے ایک دو دن انتظار بھی نہیں کرپاتے ان کی پنشن قلیل اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔
کئی گیس صارفین نے گیس کی بندش کی شکایت کی ہے، تقریباً سب جگہوں سے رات آٹھ بجے سے گیس مستقل بند کرنے کی کئی شکایات آئی ہیں، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے حکام سے توجہ کی گزارش ہے۔
قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 9750639 0337- پر میسج اور واٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام