p613 164

انتباہ کے باوجود ناکامی

خیبر پختونخوا بالعموم اور سابق فاٹا اور اب ضم اضلاع میں بالخصوص سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے، بم دھماکے کرنے اور اب صوبائی دارالحکومت میں مدرسے کے معصوم بچوں کو نشانہ بنانے سے بھولا ہوا اضطراب اور دہشت گردی کے واقعات ایک مرتبہ پھر ذہن میں تازہ ہونا فطری امر ہے۔ ضم اضلاع میں بعض غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک مرتبہ پھر شدت پسند عناصر کی موجودگی کی بھی شنید ہے، یہ اطلاع اگر غلط ہو بھی تب بھی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات تو مصدقہ ہیں جو اس امر پر دال ہیں کہ بعض علاقے مکمل طور پر ابھی تک کلیئر نہیں ہو سکے ہیں البتہ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر ٹوٹی ہوئی زنجیر کی کہیں کہیں کڑیاں موقع ملنے پر منصوبہ بند تخریب کاری کرنے سے دریغ نہیں کرتے جن کا مکمل صفایا کرنا باقی ہے اور حالات اس امر کے متقاضی ہیںکہ ان آمادہ بہ تخریب کاری دہشت گردوں کا بھی صفایا کیا جائے۔ صوبائی دارالحکومت کے مدرسے کو تنبیہ کے اجراء کے باوجود اور ایک وفاقی وزیر کا کوئٹہ اور پشاور کے واقعات کی پہلے سے پیشگوئی کے باوجود ناکام نہ بنایا جانا حکومت اور سیکورٹی اداروں کی اجتماعی ناکامی ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا کے آئی جی کا بجائے ناکامی تسلیم کرنے کے گزشتہ روز کے واقعے کی شدت تک کو تسلیم نہ کرنا حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ آئی جی ہرگز یہ بیان نہ دیتے اگر اس واقعے پر بھی گزشتہ واقعات کی طرح حکومت حرکت میں آتی، کم از کم اس واقعے پر حکومتی ردعمل ماضی سے مختلف نظر آیا۔ معلوم نہیں کہ حکومت اسے دہشت گردی سمجھتی بھی ہے یا اسے کوئی دوسرا رنگ دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری سرزمین پر ہمارے بچوں اور مسجد کو نشانہ بنایا گیا جہاں تک مدرسے میں افغانی معلم اور افغان بچوں کی موجودگی کا سوال ہے معلوم نہیں وہ باقاعدہ قانونی دستاویزات اور پاسپورٹ کے حامل تھے یا نہیں اور ان کی آمد ورفت قانونی تقاضوں کے مطابق تھا یا نہیں، اگر نہیں تو یہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کابھی بڑا سوال ہے اور مدارس کی رجسٹریشن حکومت حساس اداروں اور پولیس سبھی حلقوں کی طرف انگشت اُٹھنا فطری امر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کی بس یہی ذمہ داری رہ گئی ہے کہ انتباہ جاری کرکے بری الذمہ ہوجائیں یا پھر حفاظت کی ذمہ داری نبھانا بھی ریاست وحکومت کا فرض ہے۔ حکومت صرف مذمت کرے گی تو عوام کی حفاظت کی ذمہ داری کون نبھائے گا؟ بروقت اقدامات اور فیصلے کرنا کس کی ذمہ داری ہے، نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں جو متفقہ اور پورے ملک کی سیاسی وعسکری قیادت کے صلاح مشورہ سے طے شدہ جو لائحہ عمل موجود ہے اس کے تمام شعبوں کو یقینی بنانے کیلئے سانحہ اے پی ایس سے تاایندم کیا اقدامات کئے گئے، کتنے نکات پر سرے سے عملدرآمد کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور کیوں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں جو جامع متفقہ قومی لائحہ عمل موجود ہے اس کے نفاذ میں کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور اس پر پوری طرح عملدرآمد نہ صرف ملک میں اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے ضروری ہے بلکہ ایف اے ٹی ایف اور عالمی سطح پر قابل قبول اقدامات کے ذریعے ملک کا امیج بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر اس پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹیں ہیں تو ان کو دور کرنے پر کیا پیشرفت ہوئی اور ان پر عملدرآمد کیلئے کیا کیا گیا۔ صوبائی دارالحکومت میں ہونے والے واقعے کی جامع تحقیقات کے بعد ہی اس امر کا تعین ہوسکے گا کہ ہدف مدرسہ تھا، افغانی معلم تھا، دہشت گردی کی اس واردات کی منصوبہ بندی داعش کی تھی یا کوئی بیرونی خفیہ ہاتھ ملوث تھا، یہ کسی سانحے کا ردعمل جوابی سانحہ تو نہ تھا، ان سارے سوالات کا جواب اپنی جگہ لیکن اس امر کا بہرحال پوری طرح اعتراف ہی حقیقت کا تقاضا ہے کہ اطلاع اور علم ہونے کے باوجود اس واقعے کو رونما ہونے سے نہ روکا جاسکا، یہ بھی درست ہے کہ انتباہ کے باوجود مدرسے کی جانب سے بھی کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی علاقہ پولیس نے زحمت کی، نتیجتاً واقعہ رونما ہوگیا۔ آئندہ کا لائحہ عمل اور تدارک پر توجہ دی جائے تو بھی غنیمت ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ حکومتی ادارے محض انتباہ جاری کرنے کو کافی نہ سمجھیں اور نہ ہی انتباہ کے اجراء کو شیر آیا شیر آیا کے مصداق بنایا جائے بلکہ حقیقی خطرے کو ٹالنے، اس کو ناکام بنانے اور منصوبہ بندی کرنے والے عناصر کو بروقت دبوچ لینے کی سنجیدہ سعی کی جائے اور عوام کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  سرکاری عمارات اور سڑکوں کی مرمت کا معاملہ