3 223

سب ایک جیسا ہے کچھ بھی نہیں بدلا

سب کچھ ایک جیسا ہے کچھ بھی تو نہیں بدلا، یہ وہ وقت تھا جب پشاور پر دھماکوں کی یلغار تھی۔ کوئی ہفتہ دھماکے سے خالی نہیں جاتا تھا۔ ہمارے ساتھی جمعہ کے دن کا بطور خاص انتظار کرتے کہ اطلاع آئے گی کہ کوئی دھماکہ ہوا ہے اور وہ دوڑے دوڑے جاکر اس کی کوریج کریں گے۔ پریس کلب کے ٹی وی لاؤنج میں جمعہ کے دن سویرے ہی سے کوئی انٹرٹینمنٹ کا چینل نہیں لگتا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا والے اس دن پریس کلب میں موٹے چارسدہ والے چاولوں سے محروم رہتے کیونکہ ان کی ڈی سی این جی ہر وقت گردش میں رہتی کہ بریکنگ نیوز میں وہ سب سے آگے رہیں اور بازی مارلیں۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوجاتا کہ تھریٹ الرٹ جاری ہوجاتا تو اس علاقے سے ڈی سی این جی موو ہی نہیں ہوتی تھی۔ جب کمintensity کا دھماکہ ہوتا تو ہمارے صحافی دوست کہتے کہ پٹاخہ پھوڑا گیا ہے۔ یوں پھر ایک وقت ایسا آیا کہ روز دھماکے ہونے لگے اور روز نئی نئی کہانیاں میدان میں آنے لگیں۔ کبھی مسجد، تو کبھی بازار، تو کبھی پولیس اسٹیشن، کبھی پولیس کی گاڑی، کبھی آرمی کانوائے غرض کوئی جگہ بھی ایسی نہیں بچی جہاں معصوموں کا خون نہ بہا ہو۔ دھماکے کے بعد صحافی کوریج کیلئے نکل جاتے پھر ایک ہفتہ تک زخمیوں اور شہید ہونے والوں کے گھر کا طواف کرتے اور یوں ہفتہ گزر جاتا اور ایک نیا دھماکہ ہوجاتا اور پچھلے ہفتے کا دھماکہ سب کے ذہنوں سے اوجھل ہوجاتا اور پھر نئے دھماکے کی خبریں اخباروں اور ٹی وی کی زینت بنتیں۔ سوشل میڈیائی صحافت اس وقت میدان میں نہیں آئی تھی، نہ ہی واٹس اپ گروپس تھے بلکہ ای میل کے ذریعے ہی نیوز شیئر کئے جاتے تھے۔ دھماکے کے بعد ہر صحافی کی کوشش ہوتی کہ وہ طالبان تنظیموں سے کسی طرح قبول کروائے کہ یہ دھماکہ انہوں نے کیا ہے اور ٹی وی چینل کے پنجاب میں بیٹھنے والے اینکر اور ایڈیٹر بیٹھے ہوتے تھے کہ کب ٹی ٹی پی بیان دے اور وہ انہیں چلائے۔ اس وقت اس صحافی کو بڑا صحافی سمجھا جاتا جس کے تحریک طالبان کیساتھ روابط ہوتے۔ اس وقت سیاسی بیانات میں اے این پی کا جواب نہیں تھا، وہ موقع پر پہنچ جایا کرتے اور ٹوٹی کمر کی نوید سناتے مگر وہ ٹوٹی کمر ابھی تک سیدھی ہی ہے۔ آپریشن درغلم، آپریشن بیا درغلم، آپریشن راہ نجات، آپریشن ضرب عضب کئے گئے جس کے بعد کچھ دیر تک خاموشی ہو جاتی، پھر ایک دن پھر وہ بیدار ہوجاتے اور ایسی منصوبہ بندی سے آتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ خیبر پختونخوا میں آرمی پبلک سکول، چارسدہ باچا خان یونیورسٹی، زرعی انسٹی ٹیوٹ جیسے واقعات رونما ہوئے جو تاریخ بن گئے۔ اس دوران، کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی میں بھی اکا دکا دھماکے ہوجاتے اور ان کی طاقت کا اندازہ زیادہ اموات سے ہوجاتا، مذمتی بیانات آجاتے اور یوں زندگی رواں دواں ہوجاتی۔ آج میں پشاور دیر کالونی دھماکے کی جانب دیکھتا ہوں تو وہی2010 والی صورتحال ہے۔ اسی طریقے سے دھماکہ کیا گیا، سافٹ ٹارگٹ بچے اور مدرسے کو کیا گیا، کچھ دن پہلے تھریٹس الرٹ جاری ہوئے اور وہی ہوا، دھماکے ہوگئے۔ پہلے کوئٹہ میں دھماکہ ہوا، پھر پشاور میں دھماکہ ہوا، پشاور چونکہ دھماکوں کے حوالے سے مشہور ہی ہے تو یہ پشاوریوں کیلئے کوئی ”نیا اور بڑا” دکھ نہیں اس سے پہلے پشاوری بڑے دکھوں سے گزر چکے ہیں۔ اس وقت حکومت دوسری تھی آج حکومت دوسری ہے، سیاستدان اس وقت بھی اعلانات کرتے، اب بھی کر رہے ہیں، اس وقت بھی اعلیٰ شخصیات غم رازی کیلئے ہسپتال جاتے پھر زخمیوں اور شہید ہونے والوں کے گھر جاتے، پولیس بتاتی کہ یہ خودکش حملہ تھا یا ریموٹ دھماکہ تھا، اب بھی وقت یہی کہا جاتا ہے کہ اتنا بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا، اور یہ کہ زیادہ نقصان نہیں ہوا حالانکہ ایوریج دس سے بیس ہوتی۔ اس وقت بھی کہا جاتا کہ دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا، آج بھی وہی راگ الاپا جارہا ہے، اس وقت بھی بال کی تہہ تک جانے پر خاموشی چھا جاتی اور دو تین دن بعد صورتحال معمول پر آجاتی، لوگ دھماکے کو بھول جاتے، آج اگر میں اس دھماکے کو دیکھتا ہوں تو اس وقت بھی یہی کچھ ہورہا تھا اب بھی وہی کچھ ہورہا ہے۔ سیاسی مقاصد کیلئے جو دھماکے شروع کئے گئے تھے وہ آج بھی ہورہے ہیں یعنی ہم یہاں یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں