5 223

مسئلہ کشمیر’اقوام متحدہ سنجیدہ کوشش کرے

1947میں برصغیر آزاد ہوا، انگریز ملک دو حکومتوں کے حوالے کر کے خود واپس چلا گیا، تقسیم ہند کی دستاویز کے مطابق یہاں موجود آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس ملک کیساتھ چاہیں شامل ہو جائیں۔ ریاستوں نے زیادہ تر یہ فیصلہ مذہبی اکثریت کی بنیاد پر کیا، جغرافیائی محل وقوع بھی مدنظر رہا اور ان دونوں نکات کے مطابق کشمیر پاکستان کا ایک یقینی حصہ تھا لیکن چونکہ کشمیر کا راجہ ہندو تھا اور نہرو کشمیری اس لئے دونوں کی ذاتی خواہشات کے مطابق انہوں نے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا حالانکہ ریاست کی77فیصد آبادی مسلمان تھی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ پاکستان سے جڑی ہوئی ریاست تھی لہٰذا اس کا الحاق یقینی طور پر پاکستان سے ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہوا اور نہرو اور راجہ کی خواہش پر وہ تاریخی جرم کیا گیا جو سات دہائیوں کے بعد بھی جاری ہے۔ 22اکتوبر1947 کو قبائلی پشتون اور رضاکار کشمیری کشمیر کو آزاد کرانے اس میں داخل ہوئے اور اس کا ایک حصہ آزاد کرا لیا جو آج آزاد جموں وکشمیرکے نام سے پاکستان کا حصہ ہے۔ بھارت نے جب دیکھا کہ ایک نوزائدہ اور بے سر وسامان نیا ملک کچھ کرنے کی ہمت اور جرأت رکھتا ہے تو اس نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردار نمبر47 میں یہ قرار دیا کہ کشمیر میں استصوابِ رائے کرایا جائے اور کشمیری جس ملک کے حق میں ووٹ ڈالیں اسی کیساتھ شامل کر دیا جائے جسے دونوں ملکوں نے تسلیم کیا لیکن مسئلہ آج تک لاینحل ہے اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے باوجود اور انہیں تسلیم کرنے کے باوجود بھی بھارت استصوابِ رائے کیلئے راضی نہیں۔ 26اکتوبر 1947 کو راجہ نے بھارت کیساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے جو جرم کیا تھا اسی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین تین کھلی جنگیں ہو چکی ہیں اور مستقبل میں بھی اس کا خطرہ اس وقت تک موجود ہے جب تک اس مسئلے کا مستقل حل نہیں نکل آتا اور استصوابِ رائے نہیں کرا لیا جاتا جس کیلئے بھارت راضی نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر کشمیریوں کی غیرجانبدارانہ رائے لی گئی تو فیصلہ اُس کیخلاف اور پاکستان کے حق میں ہوگا۔ اُس نے کشمیر کا ایک ہی حل ڈھونڈا ہوا ہے کہ اُس نے اپنی جو فوجیں27اکتوبر1947 کو کشمیر میں داخل کی تھیں اُن کی تعداد بڑھاتا جائے اور کشمیریوں کو مزید اور مزید دباتا جائے لیکن وہ قدرت کا یہ قانون بھول جاتا ہے کہ کسی چیز کو جتنا دبایا جائے وہ ردعمل کے طور پر اتنا ہی زور مخالف سمت میں لگائے گی اور یہی کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے۔ کشمیر میں جدوجہد آزادی تو کبھی ختم نہ ہوئی تھی لیکن1989 سے اس جدوجہد نے جو زور پکڑا وہ آج بھی اُسی زور وشور سے جاری ہے اور کشمیری جانوں کی پرواہ کئے بغیر اپنا یہ پیدائشی حق حاصل کرنے کیلئے ہمہ تن مصروف ہیں۔ اس کے بچے جوان، بوڑھے، مرد اور عورت سب اس جدوجہد میں شامل ہیں اور ان کی زندگی کا یہی مقصد ہے کہ غلامی کی جو تاریک رات وہ دیکھ رہے ہیں ان کی آنے والی نسلیں اس قید سے آزاد ہوں۔ بھارت کا5اگست 2019 کا اقدام بھی ان کی ثابت قدمی میں کوئی لغزش نہیں لاسکا ہے بلکہ وہ زیادہ مستقل مزاجی سے اپنے مشن کے حصول کیلئے مصروف عمل ہوگئے ہیں اگرچہ ان کے گھروں کو قید خانوں میں تبدیل کیا گیا اور پوری ریاست کو ایک بڑی جیل بنا دیا گیا شاید انسانی تاریخ کا طویل ترین کرفیو لگایا گیا مکمل میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا انٹرنیٹ سروس بند کرد ی گئی لیکن وہ کشمیریوں کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکا اور آج بھی وہ اسی زور وشور سے اپنی تحریک میں مصروف ہیں۔ وہ ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں لیکن اُن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ جنوری 1989 سے لیکر اب تک ایک اندازے کے مطابق ساڑھے پچانوے ہزار سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں 22920 خواتین بھارتی افواج کے ہاتھوں بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں107802 بچے یتیم ہوچکے ہیں یہ تعداد اس سے زائد ہو سکتی ہے کم نہیں۔ ہزاروں کشمیری عورتوں کی بے حرمتی کی جا چکی ہے کیونکہ بھارتی فوج اسے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے لہٰذا اس طویل جنگ میں یہ ہتھیار لاتعداد بار استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہاں انسانی حقوقی کی جس بیدردی سے خلاف ورزی کی جا رہی ہے اُس کا ایک گھناؤنا ثبوت وہ اندھی آنکھیں ہیں جو پیلٹ گنوں کی نظر ہو چکی ہیں اب تک340 نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھیں کھو چکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ بھارت کشمیر میں کھل کر دہشت گردی کر رہا ہے اور اب دنیا کو اس کیخلاف کوئی نہ کوئی قدم اُٹھانا ہوگا ورنہ یہ بہت بڑی جیل یعنی کشمیر خود کشمیریوں کی ہی قتل گاہ بنتا رہے گا۔ اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر موجود اس سب سے پرانے مسئلے کے حل کیلئے بڑی طاقتوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے ورنہ برصغیر ہر وقت جنگ کے خطرے سے دوچار رہے گا اور یہ بھی یاد رہے کہ دونوں ممالک ایٹمی قوتیں ہیں لہٰذا کسی بڑے نقصان کے خدشے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد