p613 165

دو سو سال بعد بننے ولااحسن منصوبہ

دو سو سال بعد پشاور کیلئے نکاسی کے نئے نظام کی تجویز اس امر پر دال ہے کہ اسی دوران آمدہ حکومتوں کو اس مسئلے کا کس حد تک احساس تھا۔ فرنگی دور تک تو شاہی کٹھہ کی توسیع کی کوئی ضرورت نہیں پڑی ہوگی۔ قیام پاکستان کے بعد جب تک پشاور کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ نہ ہوا تھا شاہی کٹھہ سے نکاسی آب کی ضرورت پوری ہوتی رہی لیکن اسی کی دہائی کے بعد جب پشاور کی آبادی تیزی سے بڑھی، لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ بھی ساتھ اُٹھانا پڑا تو صرف نکاسی آب نہیں پورے شہر کا بنیادی اساس بیٹھ گیا۔ اس میں اتنی گنجائش ہی نہ تھی کہ آبادی کی بہت بڑی تعداد سماجاتی۔ لیکن کسی آنے والی حکومت کو اس مسئلے کا احساس نہ ہوا۔ موجودہ حکومت کو اس حوالے سے منصوبہ بندی، لاگت اور مدت تکمیل دیکھنے سے اس منصوبے کی تکمیل تک ایک اور منصوبے کی ضرورت کا احساس ہونا فطری امر ہوگا۔ قطع نظر ان امور کے ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو کم ازکم اس مسئلے کا احساس تھا اور موسمی بارشوں کی شدت سے جو حالات کراچی اور لاہور میں پیش آئے اگر خدانخواستہ اس شدت کی بارشیں پشاور میں ہوئیں تونشیبی علاقوں اور قدیم شہر میں پانی سر سے اونچا ہوجائے گا اور پورے کا پورا شہر ڈوب جانے کاخطرہ ہوگا۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے جتنا جلد ممکن ہوسکے اس منصوبے پر کام شروع کیا جائے اور اس کی تکمیل کی جائے۔ صوبائی دارالحکومت میں پانی کی قلت کی صورتحال 2025 تک سنگین ہونے کے خدشات کے پیش نظر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا کر پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے منصوبے بھی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، پہلے سے موجودہ پلانٹس کی بحالی کیلئے اقدامات جتنے جلد ممکن ہوں اُٹھائے جائیں ساتھ ہی ساتھ پشاور کیلئے آبنوشی کی سکیموں اور موجودہ نظام آبنوشی کی مرمت وبہتری بھی ناگزیر ہے۔
فیصلے اچھے مگر عملدرآمد کا سوال ہے
خیبر پختونخوا حکومت کا صوبہ بھر میں ایمبولینس سروس کو مزید بہتر بنانے اور ہمہ وقت ایمبولینس سروس کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے ہسپتالوں کی ایمبولینسز ریسکیو1122کے حوالے کرنے کا اصولی فیصلہ معروضی حالات کے تناظر میں موزوں اقدام ہوگا۔ اسی طرح صوبے میں صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کیلئے سیکنڈری ہسپتالوں میں ڈائنگناسٹک اور نان کلینکل سروسز کو آؤٹ سورس کرنے کے فیصلے کی اس لئے مخالفت نہیں کی جاسکتی کہ اس وقت بھی تقریباً لوگ تشخیصی ضروریات غیر سرکاری طور پر ہی پوری کرتے ہیں اور اگر یہ نظام باقاعدہ بن جائے تو عوام کو نہیں تو کم از کم حکومت اور متعلقہ ہسپتال کے مفاد میں ضرور جائے گا۔ ڈاکٹروں اور دیگر عملے کے تبادلوں کے عمل کو اسٹریم لائن کرنے کیلئے ای۔ ٹرانسفر پالیسی پر عملدرآمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ محکمہ صحت کے آئی ایم یو کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز کی مانیٹرنگ کا اختیار دینے اور آئی ایم یوکا ان ہسپتالوں کے دیگر معاملات کے علاوہ ریفرل کیسز کو بھی مانیٹر کرنے، ہسپتالوں کو ایمرجنسی ادویات کی سپلائی کے عمل کو بھی آئوٹ سورس کرنے کی بھی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔ محکمہ صحت میں اب تک موجودہ وسابق حکومت کی لائی گئیں اصلاحات اور کوششوں کو مفید اور مؤثر قرار نہیں دیا جاسکتا اور ان کو ناکامی سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا اس لئے حکومت جو بھی فیصلہ کرے سوچ سمجھ کر کیا جائے اور اصلاحات کے عمل کو لاگو کرنے، مفید بنانے اور عوام کو ممکنہ طور پر آسانی اور علاج کی بہتر سہولت دینے پر توجہ دی جائے۔ اس طرح سے ہی عوام کا سرکاری ہسپتالوں اور شفاخانوں پر اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے اور پرائیویٹ علاج کے رجحان میں کمی لائی جاسکتی ہے یا کم ازکم جو لوگ نجی ہسپتالوں میں علاج کی سکت نہ ہونے پر سرکاری ہسپتال آتے ہوں کم ازکم ان کا ہی علاج بہتر طور پرکیا جاسکے۔توقع کی جانی چاہئے کہ صوبائی حکومت جو بھی پالیسی بنائے اور جن اقدامات پر عمل درآمد پر اتفاق ہو ان کو ادھورا نہ چھوڑ ا جائے جو طریقہ کار وضع ہو اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کے طریقوں پر اچھی طرح غور کیا جائے تاکہ حکومتی اقدامات لاحاصل اور مذاق بن کر رہ جانے کی روایت کا اعادہ نہ ہو۔
ایل آر ایچ پر حکومتی رکن کا اسمبلی میں بیان
صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں انتظامی بھران اور مشینری کی خرابی پر حکومتی رکن کا اپنے ہی حکومت پر برس پڑنا اور ہسپتال کی حالت زاربیان کرتے ہوئے پشاور کے عوام علاج کیلئے کہاں جائیں کا سوال حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے تئیں صرف اہل پشاور ہی لیڈی ریڈنگ ہسپتال نہیں آتے بلکہ صوبے کا سب سے بڑا تدریسی ہسپتال ہونے کے ناتے پورے صوبے سے مریض یہاں علاج کیلئے لائے جاتے ہیںجس کی حالت زار کی مزید تفصیل کی ضرورت نہیں۔ بار بار ان سطور میں اس مسئلے کی نشاندہی کی جاچکی ہے اصلاح احوال کے مطالبات اور اسے حکومت کی بدنامی تک سے تشبیہ دی جاچکی ہے مگر بے اثر رہے اسمبلی اور عدالت میں بھی بار بار اس حوالے سے معاملات کے اصلاح کی ہدایت کی گئی مگر بے سود۔ ایک حکومتی رکن کا اسمبلی میں کھڑے ہو کر کسی مسئلے کی نشاندہی ایک سنجیدہ اور انتہائی اقدام ہے کیا اب بھی اس پر توجہ دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''