3 224

یہ پبلک ہے سب جانتی ہے

صورتحال کے تانے بانے ایوبی آمریت کے دور میں پیوست دکھائی دیتے ہیں یا ان کی پہنچ اس دور تک جاتی دکھائی دے رہی ہے، خدا جانے کیا بات ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہی بعض لوگوں کی مت ماری جاتی ہے یہی کچھ ایوب خان کیساتھ ہوا تھا، عوام کے احتجاج سے بچنے کیلئے آسان ترین نسخہ جو اس کے اردگرد موجود کاسہ لیس حواریوں اور خوشامدیوں نے تجویز کیا یہی کہ ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹرول قائم کیا جائے، ان دنوں ذرائع ابلاغ ظاہر ہے ایک سرکاری ریڈیو پہلے ہی ”میرے عزیز ہموطنو” کے نعروں سے گونج رہا تھا، ٹی وی تو بعد میں آیا، البتہ اخبارات ضرور موجود تھے، جن پر ابتداء میں سنسرشپ کی تلوار چلائی گئی اور ہر اخبار شائع ہونے سے پہلے متعلقہ سرکاری اداروں سے ”کلیرنس سرٹیفکیٹ” لینے پر مجبور کر دئیے گئے، یعنی پریس میں چھپائی کیلئے بھیجنے سے پہلے ”سرکاری عینکوں بلکہ عدسوں” سے گزارنا لازمی ہوتا اور جو خبر متعلقہ محکمے کے اعلیٰ دماغوں کے نزدیک ”خطرناک” کے زمرے میں آتی، اسے مسطر (ایک زرد رنگ کا کاغذ جس پر مخصوص روشنائی سے کتابت کی جاتی) سے کاٹ کر پھینک دی جاتی، اس کی جگہ صرف یہ الفاظ لکھ دئیے جاتے ”چربہ اُڑ گیا” کیونکہ اس کے بعد اتنا وقت نہ ہوتا کہ اس کی جگہ کوئی اور خبر شامل کی جاتی، ان دنوں متعلقہ سرکاری دفاتر میں وردی پوشوں کی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئی تھیں جو اخباری صفحات کے کتابت شدہ خبروں پر کڑی نظر رکھتے تاکہ کوئی ”نامعقول، ناہنجار” خبر یا مضمون شائع نہ ہونے پائے اور ملک کے اندر ہر طرف ”سب اچھا” دکھائی دے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام بہ امر مجبوری عالمی ذرائع ابلاغ یعنی بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے رجوع کرکے اصل حقائق جاننے کی کوشش کرتے اور نہ صرف ان دنوں بی بی سی ریڈیو حقائق جاننے کا سب سے معتبر اور خاصا مقبول ذریعہ تھا بلکہ وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی بھی بہت سنا جاتا، جہاں سے ملک کی خبریں سننے کو مل جاتیں، ساتھ ہی آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو کابل جبکہ ریڈیو زاہدان تہران بھی اُردو نشریات کے ذریعے پاکستان کے بارے میں خبریں اور تبصرے سامنے لاتے، جب صورتحال یہ ہوتی ہے تو غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی ہر جھوٹی سچی بات کو لوگ اہمیت دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یوں خصوصاً ان دنوں آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو کابل سے پاکستان کیخلاف ہونے والے پروپیگنڈے کو بھی لوگ ”سچ” کا درجہ دینے پر تیار رہتے تھے، چند سال بعد جب بظاہر تو اندرون ملک ”راوی” آمریت کیلئے چین ہی چین کہنے اور لکھنے لگا تھا کیونکہ ایک قانون ایبڈو کے تحت ملکی سیاسی قیادت پر سیاسی سرگرمیوں میں یا تو پابندی عائد کر دی گئی تھی یا پھر انہیں جیلوںمیں ٹھونس دیاگیا تھا، تو سیاستدانوں کا ایک کاسہ لیس طبقہ ”ایجاد” کرکے ان کی مدد سے کنٹرولڈ جمہوریت کے تحت عوام پر بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کر دیا گیا، 1962 ء کے آئین اور اس نئے نظام کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب کرکے ایوب خان نے خود کو صدر منتخب کروا لیا تھا اور جہاں تک ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو تب تک ٹی وی نشریات کا بھی بتدریج آغاز کرتے ہوئے پہلے لاہور پھر کراچی اور ڈھاکہ، اس کے بعد راولپنڈی اسلام آباد میں چند برس کے فرق سے سٹیشنز قائم کئے گئے جبکہ اخبارات کو قابو کرنے کیلئے پریس ٹرسٹ کے نام سے ادارہ قائم کر دیا گیا تھا اور ملک بھر میں گنتی کے چند ایک اخبارات کے سوا باقی تمام اخبارات کو ”قومی تحویل” کی کند چھری سے ذبح کرتے ہوئے ان کو ٹرسٹ کی ملکیت میں لے لیا گیا تاکہ مخالفانہ آوازیں کم سے کم ہوں۔ یہاں تک کہ لاہور اور راولپنڈی سے شائع ہونے والے ایک اہم اخبار کے ”ڈمی ایڈیشن” چھاپے جاتے اور ان میں بھی ایوبی سرکار کی مدح سرائی کے راگ الاپے جاتے، حالانکہ اصلی اخبار ایوبی حکومت کا سخت ترین ناقد تھا اور عوام میں زبردست مقبول تھا، اس پر نہ صرف نیوز پرنٹ کوٹہ ممنوع بلکہ ”حرام” کر دیا گیا تھا بلکہ سرکاری اشتہارات بھی اس کیلئے شجر ممنوعہ ہی تھے، اور وہ صرف پرائیویٹ سیکٹر کے محدود اشتہارات پر بہ مشکل تھا۔
ماضی میں جھانکنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ یہ کم بخت اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ اس کے ملتے ہی مقتدروں کی مت رخصت ہوجاتی ہے اور وہ مخالفانہ آواز سننے کی تاب رکھنا تو ایک طرف اسے کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے، تاہم ایوبی آمریت کے دور سے لیکر آج تک پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اب لوگ بی بی سی، وائس آف امریکہ وغیرہ سے رجوع کرنے کی بجائے خود ”نشریاتی ادارے” بن چکے ہیں۔ یہ جسے لوگ سوشل میڈیا کہتے ہیں اس پر اب بے شمار کھڑکیاں کھل چکی ہیں اور عوام بھی اتنے گئے گزرے نہیں رہے، یعنی بقول فلمی گیت نگار کے
یہ پبلک ہے، سب جانتی ہے
اب کوئی لاکھ بھی چاہے، بولنے والوں پر پابندی عائد کرے، ذرائع ابلاغ پر قدغنیں لگائے، ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے دباؤ بڑھائے مگر سچ تو پھر بھی سامنے آہی جاتا ہے۔ اب تو اگر گوئبلز دوبارہ جنم لیکر آجائے، اس کا پروپیگنڈہ بے اثر ہی رہے گا۔ بقول انشائ
متکلم ہیں خاص لوگوں سے
کرتے ہیں کب خطاب عام سے ہم

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں