2 333

سیاسی جلسوں کی بدزبانیاں’ احتیاط کی ضرورت

بدزبانی یعنی برابھلا کہنا، اسلام میں سختی کیساتھ منع ہے، تہذیب وشائستگی اسلامی تعلیمات کا عرق ونچوڑ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے صاف الفاظ میں بنی نوع انسان کو ہدایت فرمائی ہے کہ ”لوگوں سے اچھی بات کہو”۔ برے الفاظ اور بری بات کے بہت برے اثرات ہوتے ہیں، اسلئے کہا جاتا ہے کہ تلوار کا زخم مندمل ہوہی جاتا ہے لیکن زبان سے لگایا ہوا زخم رستا ہی رہتا ہے اور کبھی کبھی تو ناسور بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سارے پیغمبروں نے اپنے بدترین دشمنوں اور مخالفین سے بھی بہت نرم اور شائستہ الفاظ میں بات کی ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو جب فرعون کے پاس توحید کی تعلیم ودعوت دینے کیلئے بھیجا جارہا تھا تو ہدایت فرمائی گئی کہ ”ان سے نرمی کیساتھ بات کریں”۔
جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”میٹھی بات صدقہ ہے” آپ کی گوناگوں صفات جلیلہ وکریمہ میں سے ایک صفت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بیان فرمائی ہے کہ (اے نبیۖ) یہ اللہ کی آپۖ پر بہت بڑی رحمت ہے کہ آپۖ نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر آپۖ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ آپۖ کے پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے لہٰذا ان کو معاف کرو اور ان کیلئے مغفرت کی دعا کرو۔”
ان تعلیمات کو دیکھتے ہوئے جب پاکستان کی مختصر تاریخ بالخصوص سیاسی تاریخ کا جائزہ لیتا ہوں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہمارے ہاتھوں سے تہذیب واخلاق اور نرم مزاجی و شائستگی کا دامن پھسلتا گیا ہے اور اب حال یہ ہے کہ عام لوگوں سے لیکر حکمرانوں اور سیاستدانوں تک سب نے ایسا لب ولہجہ سیکھا اور اپنایا ہے کہ مروجہ اُردو لغت میں اس کے معانی ڈھونڈنا بہت مشکل کام ہے۔
پچھلے دنوں گلگت بلتستان کے انتخابی مہم اور اس سے پہلے کے سیاسی جلسوں اور پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے زعماء کے درمیان ایک دوسرے کو جن القابات وخطابات سے نوازا جاتا رہا وہ الیکٹرانک میڈیا کے طفیل ہماری سیاسی تاریخ کے ریکارڈ کا ایسا حصہ بن چکا ہے کہ میڈیاکے اینکر اپنی مطلب براری اور غرض کیلئے جب چاہیں عوام کو سنا دیتے ہیں اور بعض بہت ناگفتہ وناقابل شنید مقامات پر ”بیپ” بھی لگا دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ساری بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ورہنما بدزبانی کی شروعات واولیت کا سہرا اپنے مخالفین کے سرباندھتے ہیں اور اس حوالے سے اپنے آپ کو پاک پوتر اور بہت سوبر ثابت کرنے اور صرف برائی کا راستہ روکنے کی غرض سے اگر تھوڑا بہت کہا سنایا بھی ہے تو اس کا بوجھ بھی مخالفین کے کندھوں ہی پر ہے۔
لیکن سچ بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، مسلم لیگ ن اور پی پی کے درمیان گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کو سن کر ہم جیسے گنہگار لوگ کانوں کو ہاتھ لگا دیتے ہیں۔ اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ ن والوں نے محترمہ نصرف بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کے حوالے سے جہازوں سے جو تصاویر گرائی تھیں وہ ہمیشہ کیلئے ان کے دامن پر سیاہ داغ ہی رہے گا۔
مسلم لیگ ن میں ہمیشہ ایسے گلوبٹ رہے ہیں جو خواتین کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو شاہ سے شاہ کا زیادہ وفادار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بزرگوں کو اب بھی یاد ہے کہ گوجرانوانہ کے ایک لیگی نے محترمہ فاطہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کا ساتھ دیتے ہوئے محترمہ کے انتخابی نشان لالٹین کو ایک کتیا کے گلے میں ڈلوا کر اپنا نام تاریخ میں ریکارڈ کروایا تھا۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی جو کردار کشی اس دور میں ہوئی تھی وہ نہ اس سے پہلے متصور تھی نہ بعد میں۔ یہ چند حوالے اور یادیں اس حوالے سے زیرقلم آئیں کہ پچھلے دنوں گلگت میں پی ٹی آئی کے ایک صاحب نے محترمہ مریم نواز کے حوالے سے جو بات کی وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے لیکن اس پر ن لیگ کے بعض میڈیا پرسنز ایسے تبصرے کرتے ہیں گویا اس کی ابتداء اس سے ہوئی ہے۔ کیا مسلم لیگ ن اور پی پی کے رہنما خاتون اول کو جادوگرنی، نہیں کہتے رہے ہیں۔ کیا عمران خان کی کردارکشی کی مہم اب بھی جاری نہیں ہے۔ کیا عمران خان کے دھرنوںکو مجرے نہیں کہا گیا۔ اس حوالے سے ہم نے کسی کی طرف داری نہیں کرنی، بس بات اتنی ہے کہ ہمارے سیاسی لوگوں نے اب بھی احتیاط کا دامن تھام لیا اور ایک میثاق، اس پر کر لیا کہ جلسوں میںماؤں بہنوں اور بیٹیوں کا ذکر اس انداز میں نہیں ہوگا جو ہر لحاظ سے قابل مذمت ہو اور الیکشن کمیشن اس کیلئے قانون سازی کرکے سیاسی جماعتوں پر باقاعدہ بھاری جرمانے عاید کرے ورنہ پی ٹی آئی کے مراد سعید، علی امین گنڈاپور، فیاض چوہان اور پی پی کے چیئرمین بذات خود اور بعض جیالے، ن لیگ کے طلال چوہدری، چوہدری جاوید لطیف، عظمی بخاری وغیرہ اپنے وسیع ذخیرہ الفاظ واصطلاحات کا استعمال کرتے رہیں گے اور ہماری سیاسی ومعاشرتی فضا آلودہ سے آلودہ تر ہوتی چلی جائیگی
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

مزید پڑھیں:  ایران اسرائیل کشید گی اور سلامتی کونسل کی ناکامی