5 234

فکر اقبال اور قیام پاکستان

مملکت خداداد پاکستان اپنے وجود کیلئے جن دو شخصیتوں کی ہمیشہ احسان مند رہے گی وہ حضرت قائد اعظم اورعلامہ اقبال ہیں۔ قائد اعظم تو وہ تھے جن کے بارے میں ایک مغربی مصنف نے لکھا کہ جناح وہ عظیم شخصیت ہے جس نے تاریخ کا رُخ موڑا’ دنیا کا نقشہ تبدیل کیا اور ایک قومی ریاست کی تشکیل کی ‘ جدید دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس نے یہ تینوں کام کیے ہوں۔ علامہ اقبال وہ تھے جنہوں نے مسلم ریاست کوفکری بنیادیں فراہم کیں۔ وہ مصور پاکستان تھے۔ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور دینے والے اقبال کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی تصور قومیت کے تحت ”مسلم قومیت” کا تصور پیش کیا اور اس کو فکری جواز فراہم کیا۔ الگ مسلم ریاست کی بات ابتداء میں تھی جب جواہر لعل نہرو نے سوال اُٹھایا کہ ایک طرف تو مسلمان ”مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا” کی بات کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف اپنے لیے الگ قومی ریاست کا مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”مسلمانوں کے لیے نیشنلزم کا مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں وہ اقلیت میں ہوتے ہیں، چنانچہ مغربی تصور قومیت کو تسلیم کرنے کا مطلب اپنی مسلم شناخت کو ترک کر دینے کے مترادف ہے لیکن جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں وہاں اسلام اور نیشنلزم دو متحارب اور متصادم تصورات نہیں رہتے بلکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور ایک چیز کی مزاحمت کے باوجود مسلمانانِ برصغیر اور مذہبی حلقوں کا سواد اعظم نظریہ پاکستان و تصور پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ پیر آف مانکی شریف کے خط کے جواب میں قائد اعظم نے بھی جو بات لکھی وہ علامہ اقبال کے درج بالا اقتباس میں پیش کی گئی سوچ کے عین مطابق تھی۔ پیر صاحب نے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہونے کی ضمانت طلب کی تھی جس کا جواب دیتے ہوئے قائد عظم نے لکھا تھا کہ ”یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں غیر اسلامی نظام نافذ ہو۔”
اس جواب پرپیر آف مانکی شریف مطمئن ہو گئے اور انہوں نے مطالبۂ پاکستان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا۔ آج بھی پاکستان میں بعض دانشور حضرات دانستہ یہ فکری مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان دیگر قومی ریاستوں کی طرح ایک قومی ریاست ہے’ یوں یہ صاحبان مسلم قومیت کے تصور کا ابطال کرنے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ ذہنوں کو الجھن کا شکار کیا جائے۔مسلم تاریخ میں علامہ اقبال سے بہتر شاید ہی کسی نے اسلامی تصور قومیت کو اس کی روح کے مطابق سمجھا ہو اور اس کو درست تناظر میں بیان بھی کیا ہو۔ علامہ اقبال نے دو قومی نظرئیے کی فکری آبیاری کی اور اسے ایک توانا شجر بنایا حالانکہ غیروں کی سنگ باری میں بعض اپنے بھی حصہ دار بن چکے تھے۔ ممکن تھا کہ عامة المسلمین ان کے جھانسے میں آ جاتے لیکن یہ علامہ اقبال کی اعلیٰ و ارفع شخصیت تھی جس کے سامنے کسی عالم فاضل کی غلط دلیل کارگر نہ ہو سکی۔ مولانا حسین احمد مدنی ،علامہ صاحب کی زندگی میں اس مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے جو انہوں نے ”قومیں اوطان سے بنتی ہیں” کا بیان دے کر مسلمانوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ علامہ صاحب کی چھوٹی سی نظم کے چھ مصرعے وہ کام کر گئے جو سارے ہندوستان کے مسلمان مل کر بھی نہ کر سکتے تھے۔ بعد ازاں ”متحدہ قومیت” کے دلائل مسلمانوں کو مطالبہ پاکستان سے نہ ہٹا سکے حالانکہ اقبال اب اس دنیا میں نہیں تھے اور مسلمان دشمن قوتیں ان کی وفات سے پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی تھیں۔ اقبال نے اسلامی تصور قومیت اور اس کے تحت مسلم قومیت کا تصور مسلم ذہنوں میں جس طرح راسخ کر دیا تھا اُسے ختم کرنا اب کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ علامہ اقبال اپنی شاعری اور افکار کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں بستے تھے۔ وہ مسلمانانِ برصغیر کے نظریاتی امام تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت ان کے افکار کی روشنی میں تحریک پاکستان کا لائحہ عمل ترتیب دے چکی تھی ‘ چنانچہ 1940ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قائد اعظم نے مزار اقبال پر حاضری دی اور کہا کہ آج اقبال زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ جو کام وہ ہم سے چاہتے تھے وہ ہم نے پورا کر دیا ہے۔ یہ اقبال تھے جنہوں نے 1937ء میں قائد اعظم کے نام اپنے خط میں پاکستان کے قیام کو مسلمانانِ ہند کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ مسلم لیگ الگ وطن کے قیام کے تناظر میں اپنا لائحہ عمل ترتیب دے گی تو تب ہی اس کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔ آج پاکستان کے مسلمان ایک آزاد وطن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو ہماری ہرسانس علامہ اقبال کے افکار کی مقروض ہے ‘ چنانچہ علامہ صاحب کے افکار کی ترویج اور ان افکار کی روشنی میں پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہم سب پر وہ قرض ہے جو محض علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے سے ادا نہیںہوگا بلکہ اس کے لیے ہمیں عملی میدان میں جدوجہد کرنا پڑے گی۔

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ