4 225

اقوال زریں کی افیون

اقوال زریں اچھے ہوتے ہیں۔ انہیں پڑھو تو مثبت طاقت کے خلیے خون میں مل کر سارے جسم میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ دل کرتا ہے اقوال کی جو خوشبو ہم محسوس کر رہے ہیں سارا عالم اسی عطر سے مہک اُٹھے۔دوستوسکی کے افسانے نطشے کا فلسفہ، اقبال کی خودی اور جناح کی تقریریں سب سے ایک ایک لائن مستعار لے کر اقوال زریں بنتے ہیں۔ انہیں آپ پنچ لائن بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ سیدھا دل پہ اک مکے کی طرح زور سے لگتی ہیں۔ آدمی خواہ مخواہ ہی فلسفی سا محسوس کرنے لگتا ہے۔یہ اقوال کبھی کبھی نکوٹین کا متبادل سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہیں سنانے والے کو لگتا تھا کہ چند لفظوں کا جادو سوئے ضمیر جگانے میں مدد گار ہوتا ہے۔ جاگنے کا علم نہیں ہاں آنکھیں کھولنے کیلئے چائے کافی سگریٹ، پان، گٹکا اور تلخ تجربہ یہی کافی ہوتے ہیں۔پہلے درسی کتب کے آخر میں اقوال زریں اس لئے چھاپ دئیے جاتے تھے تاکہ خالی صفحہ پر ہو سکے۔ اس مقصد کیلئے ناشر کے یہاں موجود سب سے عقل مند جسے گردانا جاتا تھا اسے دس اقوال زریں جمع کرنے کا کہا جاتا تھا۔ اب ان دس اقوال میں کتنے حکیم لقمان کہہ گئے اور کتنے ایرانی ہوٹل پر روز ملنے والے بڑبولے صحافی کے ہیں یہ ناشر کے اسی عقل مند کارندے کی صوابدید ہے۔ان دس اقوال سے پتا چلتا تھا کہ قائداعظم بچوں کیلئے کتنا کچھ کہہ گئے، لیاقت علی خان کے گولی لگنے کے بعد آخری الفاظ پوری فلسفہ حیات تھے، سادہ غذا حکیم سعید کے مطابق کامیابی کی کنجی ہے، صفائی ستھرائی پر شیخ سعدی بہت زور دیتے تھے اور نیپولین بونا پارٹ تو ادھار لیکر بھول جانے والوں سے بھی واقف تھے۔اقوال زریں کی یہ افیون بچوں کو میٹرک، انٹر اور یونیورسٹی تک دی جاتی ہے جس کا اثر دیر تک رہتا ہے۔ جیسے ہی وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں کئی برسوں گھول کر پلایا گیا سارا نشہ ہرن ہونے میں گھنٹے نہیں لگتے۔ اقوال زریں کی اثر پذیری پر ہمارے اندھے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ دفتر، سرکار، کاروبار، بازار وغیرہ میں کام کرنے والے بڑے بچوں کیلئے بھی اخبارات ورسائل میں سنہری اقوال کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اللہ جانے یہاں بھی ناشر کی مراد خالی جگہ پر کرنا ہی ہوتی ہے کہ نہیں۔ صفحے سیاہ کرنے کی بات چل نکلی ہے تو یاد آیا اقوال زریں کا ایک اور زبردست استعمال ہمارے یہاں کے عدالتی فیصلوں میں بھی کیا جاتا ہے، جیسے کہ کئی کئی عشرے گزرنے کے بعد دئیے جانے والے فیصلے کے ماتھے پر لکھا ہوتا ہے انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ کچھ ججز دیسی اقوال کے موتی بکھیرتے ہیں اور جنہیں انگریزی پر گرفت ظاہر کرنی مقصود ہو وہ ارسطو تک چلے جاتے ہیں۔تازہ تازہ لکھی تاریخ میں صرف ایک پانامہ مقدمے کا فیصلہ ایسا ہے جس نے مقبولیت کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑے لیکن اس فیصلے میں اقوال کی جگہ امریکی ناول نگار ماریو پوزو کے دی گاڈ فادر نامی ناول کے ڈائیلاگ لکھے گئے۔سیاستدانوں کو بھی انہی اقوال حکمت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اکثر وہ ایک ہی تقریر بلکہ ایک ہی سانس میں خلیل جبران کے قول اور سلطان راہی کے ڈائیلاگ پر ایک ساتھ طبع آزمائی فرماتے ہیں۔ بعضے سیاستدان جوش خطابت میں چرچل کا قول بھٹو اور بھٹو کا کہا ضیا الحق پر فٹ کر دیں تو کوئی برا نہیں مناتا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم اگر اقبال اٹھالوی نامی کسی گمنام شاعر کے شعر کو شاعر مشرق سے منسوب کر دیں، واہ واہ بنتی ہے۔خیر اب ڈیجیٹل دور ہے، ہر قسم کا مواد سوشل میڈیا پر چھاپ دیا جاتا ہے، داڑھ کے درد کے علاج سے لے کر تابخاک کاشغرتک۔ سوشل میڈیا تو وہ جہنم ہے جسے ہل من مزید کا آسرا ہے، آپ اپنا آپ اس جہنم میں جھونکتے رہیں جہنم کا یہ میدان ہمیں ایندھن بنا کر دہکاتا رہے گا۔ سوشل میڈیا پر بھی خالی جگہ بھرنے کیلئے بعض کو دانائی جھاڑنے کا شوق ستاتا ہے، سو تان اقوال زریں پر ہی آ کرٹوٹتی ہے۔ دن میں ایک دو بار مولانا رومی کی کوئی انوکھی بات نہ سوجھ جائے، فراز سے زبردستی کچھ کہلوا نہ لیا جائے اور شام تک اقبال کی کلیات میں کچھ نیا اضافہ نہ کر لیں دن نہیں ٹوٹتا۔ اس لئے اقوال زریں کے خزانے میں اب تو روز نئے قول کا اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے کہ یہ قول فائلوں کو پہئے لگانے پڑتے ہیں۔ یہ ہیرے اپنے اقوال میں مہنگائی سے لیکر خلائی سٹیشن تک سب کا احاطہ کئے لیتے ہیں۔ سنہری اقوال اور حکایتوں کی اس چکاچوند میں سچی کھری اور عملی باتیں بہت بے رنگ لگتی ہیں لیکن تحریر سمیٹتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم چاہیں بھی تو زندگی اقوال زریں کے حساب سے چلتی نہیں۔ظلم وانصاف پر ہزاروں کے حساب سے اقوال مل جائیں گے لیکن یہ چمکتے مہکتے الفاظ اس بچے کی آنکھوں میں ٹھہرے اس منظر کا اثر زائل نہیں کر سکتے جب اس کے سامنے اس کے باپ کو کوئی ناحق گولیوں سے بھون گیا۔ ماضی کے گیانی لوگوں کے اکثر قول اس دور میں سمجھنا مشکل ہوگیا ہے۔ منیر نیازی کہہ گئے
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کیلئے
ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو
جناب سنہری اقوال بھی سننے اور پڑھنے کیلئے ہوتے ہیں، انہیں بس سنتے رہا کیجئے۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی