p613 180

بجلی بم پھر گرانے کی تیاریاں

کوئی مہینہ نہیں گزرتا کہ بجلی صارفین پر مزید در مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، اب تو یہ بوجھ مستقل اور ماہانہ بنیادوں پر بجلی صارفین کیلئے وبال جان بنادیا گیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابقبجلی صارفین پر مزید 82 ارب 69 کروڑ روپے کا بوجھ منتقل کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، تقسیم کارکمپنیوں نے نیپرا کو 82 ارب 69 کروڑ روپے کا بوجھ صارفین پر ڈالنے کی درخواست دے دی۔نیپرا کے مطابق تقسیم کار کمپنیوں نے اپریل سے جون 2020 تک کی ایڈجسٹمنٹ مانگی ہے، کمپنیوں نے کیپیسٹی پرچیز پرائس کی مد میں 81ارب10کروڑ روپے مانگے ہیں جبکہ آپریشنز اینڈ مینٹیننس کی مد میں 56کروڑ70لاکھ روپے مانگے گئے ہیں ۔نیپرا کے مطابق یوز آف سسٹم چارجز کی مد میں 2ارب 27کروڑ روپے مانگے گئے ہیں۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی درخواست پر 24 نومبر کو سماعت کی جائے گی۔ درخواست کی منظوری کی صورت میں صارفین کوبھاری بل اداکرناہوں گے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ صارفین پر ہر ماہ اور سال بھر بجلی گرانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ہر بار اس کی منظوری میں نیپرا کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور نہ ہی حکومت کو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے اس کی وجہ کبھی آئی ایم ایف کی فرمائش ہوتی ہے تو کبھی کوئی اور عذر تراش لیا جاتا ہے۔ جاری ماہ کے یونٹوں کی قیمت بڑھائی جاتی ہے اور اسی دورانیہ میں گزشتہ مہینوں کے بقایاجات نکل آتے ہیں جن کو بھر تے بھرتے عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ حکومت کے پاس بجلی سستی کر نے کا کوئی منصوبہ نہیں،سستی پن بجلی بھی مہنگی کر کے فروخت ہوتی ہے۔ جتنی بجلی کے یونٹ کی قیمت ہوتی ہے اس سے زیادہ اضافی مد میں وصولی ہوتی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کر رکے گا، عوام سے بقایا جات کے نام پر کب تک وصولیاں ہوتی رہیں گی، عوام کے پاس بجلی منقطع کرنے کا اگر آپشن ہوتا توبعید نہیں کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خود کو سرکاری بجلی سے محروم کرلیتی۔
جعلی اور غیرمعیاری اشیاء کی بھرمار
پشاور کی مارکیٹوں میںغیرمعیاری شیمپوئوں کی بھر مار ہے، پشاور کی مختلف مارکیٹس میں غیرمعیاری شیمپو مہنگے داموں فروخت ہونے کی شکایات ہیں جس سے بالوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ جلدی امراض بھی پھیل رہے ہیں۔ مقامی طور پر تیار کئے جانے والے دیسی شیمپوز پر انٹرنیشنل برانڈز کے لیبل لگا کر اصل قیمت میں فروخت کیا جارہا ہے، ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں نے پر اسرار طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں صادق اور امین تاجر یا تو رہے نہیں جو معقول منافع پر معیاری اشیا کا کاروبار کریں، معیاری مصنوعات کا کاروبار اب منافع بخش نہیں سمجھا جاتاجبکہ غیرمعیاری اور جعلی اشیاء اصل کی قیمت پر فروخت معمول کا کاروبار بن چکا ہے اور یہ اس قدر عام ہے کہ کسی دکاندار کو کبھی اس امر کی فکر نہیں ہوتی کہ ان کی دکان سے ان جعلی مصنوعات کو قبضہ میں بھی لیا جا سکتا ہے اور ان کیخلاف قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اشیائے خورد ونوش سے لیکر ہر قسم کی جعلی اشیاء کی تیاری کے مراکز شہر کے مرکزی اور اردگرد کے علاقوں میں قائم ہیں، جہاں ان کی تیاری اور پھر سپلائی ہوتی ہے۔ جعلی ادویات تک مارکیٹ میں کھلے عام بک رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کی روک تھام نہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی اس کیلئے کوئی حکومتی مشینری موجود ہے، بد قسمتی سے عوام بھی اشیاء کو سستی سمجھ کر خریدنے اور استعمال کرنے پر مجبور ہے جس کے باعث وہ نت نئی بیماریوں میں مبتلا اور مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو اس سنگین مسئلے کا فوری اور سخت نوٹس لینا چاہئے اور جعلی وغیرمعیاری اشیاء کیخلاف ہر سطح پر سخت مہم چلانے کی ضرورت ہے۔جب تک ان مصنوعات کی تیاری کے مراکز بند اور ان کو تیار کرنے والے سلاخوں کے پیچھے نہیں ہوں گے عوام کو اس سنگین صورتحال سے نجات نہیں مل سکے گی۔
ہراسانی پر طالبات کا احتجاج
تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاورکی طالبات کا ادارے میں ہراسگی کے بڑھتے واقعات کیخلاف جلوس نکال کر احتجاج اس امر پر دال ہے کہ جامعہ میں طالبات عدم تحفظ کا شکار ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ شنوائی کیلئے بغیر کسی رازداری کے ہراسانی کے واقعات کا افشاء کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں جو نہایت شرمناک اور سنگین صورتحال ہے۔ طالبات کا الزام ہے کہ اساتذہ پرچوں کی چیکنگ، تحقیقی مقالے کا جائزہ اور دیگر حربوں سے طالبات کو ہراساں کرتے ہیں جس کے باعث طالبات میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے جبکہ ہراسگی واقعات کے حوالے سے انتظامیہ نے چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامیہ کالج کی طالبات کو تحفظ فراہم کیا جائے۔گورنر خیبرپختونخواشاہ فرمان کو اس سنگین مسئلے کا ذاتی طور پر نوٹس لینا چاہئے، بہتر ہوگا کہ گورنر احتجاج کرنے والی طالبات کو گورنر ہائوس بلا کر ملاقات کریں اور ان کے معروضات سن کر ذمہ دار عناصر کیخلاف سخت اقدامات یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟