p613 180

مشرقیات

امام بخاری کی خدمت میں تحفے پیش ہوئے۔ دوستوں، عقیدت مندوں کی طرف سے یہ تحفے آئے تھے۔ ایک سے ایک اچھا، ایک سے ایک اعلیٰ تحفہ تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب امام بخاری کے پاس کچھ نہ تھا، فقر وفاقے سے دن گزرتے تھے، ویسے امام بخاری بڑے دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئے۔
اُن کے والد نے ان کیلئے بڑی دولت چھوڑی تھی جب اس دولت کے برتنے کے دن آئے تو امام بخاری نے علم حاصل کرنے میں ساری دولت خرچ کردی۔ دُور دُور کا سفر کرتے اور بڑے بڑے علماء سے حدیثوں کا درست لیتے تھے، دل کھول کر اللہ کے بندوں کی مدد کرتے، نتیجہ یہ کہ بہت جلد ساری جمع پونجی خرچ کر بیٹھے۔ یہ دولت تو انہوں نے لُٹا دی لیکن دولت علم سے اپنے دل ودماغ کو بھر لیا۔
یہ وہ لازوال سرمایہ تھا کہ اُس کے لٹنے یا گم ہو جانے کا کوئی امکان نہیں۔ امام بخاری بہت بڑے محدث اور مفسر تھے، اُن کی کتاب صحیح بخاری حدیثوں کی تمام کتابوں سے مستند اور معتبر سمجھی جاتی ہے۔ یہ کتاب انہوں نے بڑی احتیاط سے لکھی ہے، کوئی غلط بات آپۖ سے منسوب کرنا گناہ ہی گنا ہے، امام بخاری ہر حدیث لکھنے سے پہلے غسل کرتے دو رکعت نفل پڑھتے، بارگاہ خداوندی میں دُعا کرتے پھر لکھنا شروع کرتے، اس شان سے دنیا میں آج تک کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی۔
امام بخاری کے پاس جو تحفے آئے انہیں رکھ کر وہ کیا کرتے؟ پیٹ کو روٹی کی ضرورت تھی، اس لئے خیال ہوا کہ انہیں فروخت کر دینا چاہئے۔ شہر کے ایک تاجر نے آکر چیزوں کو دیکھا، پانچ ہزار درہم اس کے دام لگائے۔ امام بخاریکو رقم کی بڑی ضرورت تھی اس لئے جی چاہا کہ فوراً سودا کر دیں لیکن پھر رُکے رہے، کچھ سوچ کر بولے میں یہ بات کل طے کروں گا کہ مجھے یہ تحفے بیچنے ہیں بھی یا نہیں۔ وہ تاجر دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ امام بخاری نے طے کیا کہ یہ تحفے اس تاجر کے ہاتھوں فروخت کر دیں گے۔ دوسرے دن اس سے پہلے کہ وہ تاجر آتا ایک اور تاجر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا میں آپ کے تحفے آنکنے آیا ہوں، ان کی قیمت لگاؤں گا اور خریدوںگا۔
اس تاجر نے تمام تحائف کے دس ہزار درہم قیمت لگائی، پچھلے تاجر نے پانچ ہزار درہم لگائے تھے چنانچہ لوگوں نے کہا حضرت اچھا ہوا کہ ہم نے نئے تاجر کو مال دکھایا۔ اُس نے دس ہزار درہم لگائے ہیں، جواب ملا جو دام بھی اُس نے لگائے ہوں چیزیں پہلے تاجر کو ملیں گی! پوچھا گیا کیوں؟ فرمایا اس لئے کہ رات میں نے اپنے دل میں طے کر لیا تھا کہ میں اسی کے ہاتھ انہیں فروخت کردوں گا۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟