2 334

ٹرمپ صدارت’ ایک ڈراؤنے خواب کا خاتمہ

ڈونلڈٹرمپ کی شکست سے امریکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اور تقریباً ساری دنیا نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ ٹرمپ نے ناصرف امریکہ کو طبقاتی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا بلکہ جارحانہ طرزعمل پر مبنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈالا۔ ٹرمپ سے پہلے کسی امریکی صدر نے اخلاقیات اور سیاسی معیار کے اتنے انتہائی نچلے درجے کو نہیں چھوا تھا۔ وہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے اور انہیں اس پر کسی پشیمانی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ ان کے کئی ساتھیوں کو غیرقانونی سرگرمیوں اور جھوٹ بولنے پر سزا ہوئی۔ ان کا ایوان نمائندگان نے مواخذہ بھی کیا مگر ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہیں سیاہ فام امریکیوں کی زندگی سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اس لئے انہیں انتہاپسند سفید فام امریکیوں میں بھی اچھے لوگ دکھائی دیتے تھے۔ ٹرمپ نے ان سفید فاموں کو جو دل سے نسل پرست تھے، زبان اور ہمت دی کہ وہ سیاہ فاموں، لاطینی، غیرعیسائی اور تارکین وطن کو کھلے عام ڈرا دھمکا سکیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنائیں۔
ایک غیرسنجیدہ سیاستدان کا ثبوت دیتے ہوئے وہ کرونا کے بارے میں انتہائی عجیب اور غیرسائنسی خیالات رکھتے تھے۔ انہیں سائنس سے ویسے بھی خاص دلچسپی نہیں تھی اور سائنسدانوں کو بیوقوف سمجھتے تھے۔ انہیں موسمی تبدیلی بھی ایک سائنسی سازش نظر آتی تھی۔ امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک صدر نے اٹارنی جنرل کے دفتر کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا اور یہ اہم ادارہ انہیں اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنے سے منع کرنے میں ناکام نظر آیا۔ ٹرمپ نے ملک کو تقسیم کرتے ہوئے مختلف اداروں کو چاہے ایگزیکٹو، عدلیہ، تحقیقاتی ادارے یا موسمیاتی ایجنسی سبھی کو اپنے پیروکاروں سے بھر دیا۔ ان اقدامات سے ناصرف ان اداروں کی آزادی متاثر ہوئی بلکہ رپبلکن گورنروں کو بھی ترغیب ہوئی کہ وہ انتخابات جیتنے کیلئے انتخابی قوانین میں اپنی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں کر سکیں۔ ایسے اقدامات اب شاید نئی ڈیموکریٹک انتظامیہ کو بھی مجبور کریں کہ وہ ان اداروں خصوصاً عدلیہ میں اپنے حمایتی ججز بھر سکیں۔ شاید ڈیموکریٹ انتظامیہ نئی ریاستیں بھی بنائے جس سے انہیں سینیٹ میں اکثریت حاصل ہو سکے۔
امریکہ میں پہلی دفعہ ایک صدر نے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھا اور کھلے عام اپنے آپ کو کسی بھی جرم سے معافی دینے کی بات کی، ٹرمپ نے جھوٹ پر مبنی اپنے بیانئے کو فروغ دینے کیلئے مرکزی دھارے والے میڈیا کو مسلسل بدنام کیا جس سے امریکیوں کو ٹرمپ کے بارے میں کسی بھی منفی خبر پر یقین کرنا مشکل سا ہوگیا۔ ہر وہ معتبر خبر جو ٹرمپ کیخلاف ہوتی اس کی صداقت پر ٹرمپ سوال کھڑے کر دیتا تھا۔ غرض ٹرمپ صدارت نے امریکہ کو ہمیشہ کیلئے بدل دیا اور وہ ایک نئے پست درجے پر کھڑا نظر آیا۔
ٹرمپ کی اُٹھان امریکہ جیسی پرانی جمہوریت میں بڑی انہونی سی لگتی ہے۔ ایسا کم علم رکھنے والا اور سیاسی دانش مندی سے مبرا شخص پہلی دفعہ امریکہ میں اس اعلیٰ مقام پر پہنچا۔ ٹرمپ جیسے سیاستدان کی سوچ رکھنے والی ذہنیت کی ابتدا صدر اوباما کے انتخابات کے فوراً بعد شروع ہوئی۔ انتہاپسند اور کم خواندہ سفید فام امریکیوں کیلئے ایک سیاہ فام صدر کا انتخاب ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔
انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کا صدر ایک سیاہ فام بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اوباما سے پہلے سفید فام امریکی ہی صدر منتخب ہوتے ہوئے آئے تھے تو اس طرح کے نسل پرست امریکی عموماً انتخابات میں کم ہی ووٹ ڈالتے تھے۔ لیکن صدر اوباما کے انتخاب کے بعد ان میں ایک سیاسی بیداری پیدا کی گئی کہ سفید فام اکثریت خطرے میں ہے اور وہ جلد اپنے ہی ملک میں اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں انتہا پسند اور قدامت پسند سیاسی گروہوں نے بہت سرگرمی سے حصہ لیا اور ایک نئی تحریک ٹی پارٹی کے نام کا آغاز ہوا۔ اس کے ذریعے ان سفید فام امریکیوں میں یہ جذبہ بیدار کیا گیا کہ انہیں اپنا ملک واپس لینا ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے قدامت پسند سیاسی مبصروں نے نمایاں کردار ادا کیا اور یہی ذہنیت ان لوگوں کو بہت بڑی تعداد میں پہلی دفعہ پولنگ سٹیشن تک لائی اور صدر ٹرمپ کو2016 میں اقتدار میں لانے میں کامیاب ہوئی۔
بہت سارے قدامت پسند ووٹرز جنہوں نے2016 میں ٹرمپ کو ووٹ دیا وہ اس کی چار سال کی کارکردگی خصوصاً اس کے اپنے ذاتی معاملات میں ایک صدر کی شان کیخلاف ناگوار روئیے سے مایوس ہوئے اور بائیڈن کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ 2016 میں ٹرمپ کو ووٹ دیتے ہوئے جانتے تھے کہ وہ باقی صدور سے اپنے روئیے میں انتہائی مختلف ہوں گے مگر انہیں اس قدر پستی کی توقع نہیں تھی۔ٹرمپ عہد اختتام پذیر ہوا ہے مگر ٹرمپ کی سوچ کئی دہائیوں تک زندہ رہے گی اور وہ یقیناً جلد یا بدیر کسی اور ٹرمپ کی صورت میں ظہور پذیر ہوگی۔ ٹرمپ نے جن منفی قوتوں اور سوچوں کو آزاد کیا ہے انہیں آسانی سے واپس مقید نہیں کیا جا سکتا اور یہی ٹرمپ کی امریکہ کیلئے حقیقی میراث ثابت ہوگی۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!