2 335

بین الصوبائی ہم آہنگی

پاکستان نظرئیے کی بنیاد پر بننے والی دورجدید کی پہلی ریاست تھی اور اس کا نظریہ تھا ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ یہی نظریہ جو دوقومی نظریہ کہلایا اور یہی پاکستان کی اساس بنا۔ چودہ اگست1947 کو پاکستان بن گیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک قوم بننے میں ہمیں ابھی مزید محنت کی ضرورت ہے جو ہم نے اس طرح نہیں کی جیسی ہمیں کرنی چاہئے تھی۔ ہم پر اب بھی صوبائیت کا رنگ غالب آتا رہتا ہے۔ ہم خود کو پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی اور کشمیری کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ملک کے اندر ہماری پہچان ہے اور اس پہچان پر فخر کرنا کچھ بُرا بھی نہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دوسرے صوبے کے بارے برے خیالات رکھیں یا وہاں کے لوگوں کو کم خیال کریں لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایسا ہی کرتے ہیں حالانکہ ہم نے ایسا کرنے کی بہت بڑی سزا1971 میں آدھا ملک گنوا کر پائی ہے۔ شروع شروع میں ایک دوسرے پر ہونے والی تنقید سے بات آگے بڑھ کر شدید نفرت اور پھر دشمنی اورآخرکار علیحدگی تک جاپہنچی بلکہ علیحدگی کے بعد بھی دلوں کی کدورتیں برقرار رہیں اور اب تک تعلقات اس نہج پر نہیں آئے جہاں ہونے چاہئے تھے لیکن ہم نے اس سانحۂ عظیم سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا اور اب بھی کسی نہ کسی شکل میںکسی نہ کسی پیمانے پر یہ روئیے موجود ہیں، اگرچہ میڈیا نے اس گیپ کو کافی حد تک پاٹ دیا ہے یا کم کیا ہے لیکن ابھی اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ روئیے صرف صوبائی سطح پر موجود نہیں بلکہ صوبوں کے اندر بھی ایک دوسرے پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔
ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ بلوچستان کا ہے جس کے مخصوص طبعی اور سیاسی حالات کی وجہ سے صوبہ ترقی کی دوڑ میں باقی صوبوں سے پیچھے ہے۔ اس پسماندگی میں زیادہ ہاتھ وہاں کے سرداری نظام کا ہے جس میں سردار نہیں چاہتے کہ ان کی رعایا بہتر ماحول میں بہتر سہولیات کیساتھ رہے لیکن اس چیز کو دوسرے صوبوں سے نفرت اور منفی رویّوں کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور بجائے ترقیاتی کاموں کے منفی رویہ پیدا کرنے پر زیادہ کام کیا جا رہا ہے جو دراصل صوبے کی پسماندگی کی وجہ ہے ورنہ ہر پاکستانی دل سے یہ چاہتا ہے کہ بلوچستان کے تمام شہر کوئٹہ کی طرح پھلیں پھولیں اور ترقی کریں۔ یہ تو تھے وہ منفی روئیے جو کم سطح پر سہی لیکن موجود ضرور ہیں اور اگر اسے روکا نہ گیا توخدانخواستہ یہ سلسلہ آگے بھی بڑھ سکتا ہے اس لئے حکومت کو اس پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے اور وزارت بین الصوبائی رابطہ کو سیاسی امور کیساتھ ساتھ عوامی ہم آہنگی پر بھی کام کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں نیچے دی گئی کچھ تجاویز پر اگر کام کیا جائے تو ہم ان رویوں کو کافی حد تک روک سکیںگے۔ طلباء کسی بھی قوم کا وہ طبقہ ہے جن کے ذہنوں پر اس عمر میں جو لکھ دیا جائے اس کا اثر تاعمر رہتا ہے، اسی فارمولے پر بین الاقوامی سطح پر کام کیا جاتا ہے اور مختلف ملکوں کے درمیان سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام چلتے ہیں جیسے کہ امریکہ کا مختلف ممالک کیساتھ کینڈی لوگر ایکسچینج پروگرام ہے جس میں پاکستانی طلباء کسی امریکی خاندان کیساتھ رہتے ہیں اور وہاں کی معاشرت سے آگاہ ہوتے ہیں، اسی طرح کے کچھ مناسب انداز کے پروگرام بین الصوبائی سطح پر بھی چل سکتے ہیں تاکہ خاندانی سطح پر خوشگوار تعلقات استوار ہوں، اگرچہ ہمارے طلباء دوسرے صوبوں میں تعلیم ضرور حاصل کرتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ اس پروگرام کے تحت بھی اگر لائے جائیں تو بھی نرم گوشہ پیدا کرنا ممکن ہے۔ اسی طرح اگرچہ ہمارے ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں لیکن اس میں بات دوسرے صوبوں کے روایتی لباس پہننے سے آگے نہیں بڑھتی۔ ان پروگراموں میں دوسرے صوبوںکی روایات، وہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں، وہاں کی سیاست وغیرہ پر بھی کھلے ذہن کیساتھ بات ہو اور زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس میں شامل کیا جائے۔ ان کے درمیان ماڈل یونائیٹڈ نیشن کی طرز کے مباحثے ہوں تاکہ وہ ایک دوسرے کے وسائل ومسائل سے آگاہ ہو سکیں۔ ایسی نمائشیں لگائی جائیں جس میں تمام صوبوں کی نہ صرف دستکاریاں رکھی جائیں بلکہ دلچسپ انداز میں ان کے مشہور مقامات اور کھانوں سے لیکر شخصیات تک کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔ ایک دوسرے کی زبانوں کو ضروری عام بول چال کی حد تک بچوں کو سکھایا جائے اگرچہ ہمارے رابطے کی زبان اُردو رہے تاہم کچھ الفاظ اور جملے اگر سکول کی سطح پر ہی صوبائی زبانوں کے سکھا دئیے جایا کریں تو اپنائیت کا ایک احساس اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے صوبوں کی ترقی کو سراہا ضرور جائے لیکن مثبت انداز میں اور اسے رول ماڈل بنانے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا جائے اگر ایک صوبے نے عوام کی فلاح کیلئے کوئی منصوبہ بنایا ہے تو دوسروں کو ایسا کرنے کی ترغیب دی جائے نہ کہ اس پر تنقید کی جائے۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ کے دائرۂ کار کو بڑھا کر عوامی سطح تک لایا جائے اور قوم کو متحد قوم کے طور پر اُبھارا جائے، یہ کام مشکل نہیں صرف خلوص سے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند