p613 181

مکالمہ وسیع تر مفاد کیلئے ہونا چاہئے

پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ان کی جماعت فوج سے بات کرنے کیلئے تیار ہے اور اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بات چیت پر غور کیا جا سکتا ہے لیکن پہلے تحریکِ انصاف کی حکومت کو گھر جانا ہو گا۔ بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو میں مریم نواز نے اس سوال پر کہ کیا وہ موجود فوجی قیادت سے بات کرنے کو تیار ہیں، مریم نے اپنے پیغام میں کہا کہ اگر یہ جعلی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ملکی معاملات کی درستگی کیلئے مکالمہ، مذاکرات اور ایک دوسرے کا موقف سمجھ کر ملک کو موجودہ حالات سے نکالنے کی ضرورت سے کسی کو انکار ممکن نہیں لیکن مذاکرات کس سے ہونے چاہئیں، کس حیثیت میں مذاکرات کئے جائیں، فریق کون ہوں گے یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات پر ابہام ہیں۔ مسلم لیگ(ن) میں سخت گیر بیانیہ کے پرجوش حامی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک نجی چینل سے بات چیت میں فوج،عدلیہ اور سیاستدانوں کے درمیان بات چیت کی تجویز دی۔ قومی ڈائیلاگ پر اکثر وبیشتر زور دیا جاتا رہا ہے لیکن ڈائیلاگ کیلئے حکومت کے گھر جانے کی جو شرط عائد کی جاتی ہے یہ شرط کیسے پوری ہوگی اور یہ مطالبہ کس سے کیا جارہا ہے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔کسی سیاسی جماعت کو گھر بھجوانے کے دو معروف آئینی وقانونی طریقے ہیں کہ حکومت مستعفی ہو جائے یا پھر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو رخصت کیا جائے، فی الوقت آزادانہ طور پر یہ دونوں ممکنات نظر نہیں آتے۔ اگر ان دونوں طریقوں سے حکومت رخصت ہو جاتی ہے تو پھر نئی حکومت یا پھر نئے انتخابات ہوں گے، اس طرح سے پی ڈی ایم کا مقصد حاصل ہو جائے گا تو پھر مکالمہ کس موضوع پر ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کے حوالے سے شرط کے بغیر قومی مکالمہ کا جواز بھی ہے اور گنجائش بھی اور ضرورت بھی ہے تاکہ ملک میں آئندہ کیلئے کوئی ایسی صورتحال باقی نہ رہ جائے جو تضادات کا باعث ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صاف اور شفاف انتخابات اور اس حوالے سے امور پر اتفاق وہ بنیادی نکتہ ہے جسے طے ہونا چاہئے، اقتدار کی منتقلی کے بعد کسی بھی جانب سے حکومتی معاملات میں مداخلت اور سویلین قیادت کو آزادانہ فیصلے کرنے میں رکاوٹیں پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ سبھی کا اپنے اپنے دائرۂ کار میں کام کرنے پر عملی طور پر اتفاق اور اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ بہت سارے معاملات میں جن پر مکالمہ کی ضرورت ہے لیکن جب موجودہ حکومت کی رخصتی کی شرط آجاتی ہے تو معاملات قومی مکالمہ اور ملکی ضرورت سے ہٹ کر اقتدار کے گرد گھوم جاتے ہیں اور اس کے گھر جانے کے طریقہ کار کا سوال اُٹھتا ہے جو اگر سیاسی وآئینی طریقے سے ہو تو درست لیکن اس میں کردار کون ادا کرے، کیوں کرے، اس حکومت کو گھر بھیجنے کا مطالبہ کس سے کیا جاتا ہے اور کون اس حکومت کو گھر بھیجے گا، اس کا جواز کیا ہوگا اور طریقہ کار کیا اختیار کیا جائے گا یہی تو وہ سارے معاملات ہیں جس میں کسی جانب سے مداخلت کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے، اگر مکالمہ کا بنیادی نکتہ ہی یہ قرار پائے تو پھر ایک کی رخصتی کے بعد دوسرے اور مداخلت کا جواز باقی رہتا ہے۔ اس طرح کے مکالمے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم، حکومت اور متعلقہ تمام ادارے مکالمہ اگر آئندہ کسی مداخلت سے پاک حکومت اور اقتدار کی بلا مداخلت منتقلی پر کریں تو اس کی گنجائش بھی ہے اور یہ ضروری بھی ہے کہ ملک میں اقتدار کے معاملات ایک ایسے انداز میں طے ہوں کہ آئندہ تضادات وشکایات کی گنجائش نہ رہے۔ ہم سمجھتے ہیںکہ آئین اور دستور میں یہ سارے معاملات احسن انداز میں اور تفصیلی طور پر طے ہیں بات ان پر عملدرآمد کی ہے عدم عملدرآمد کا بار کسی ایک فریق پر نہیں پڑتا اس لئے کہ سمجھوتہ اور مفادات کو چھوڑنے پر کوئی فریق تیار نہیں بلکہ ہرفریق حالات کو اپنے موافق کرنے میں مدد کیلئے دوسرے فریق کی مداخلت کا خواہاں رہتا ہے اور یہی وہ کیفیت اوررویہ ہے جو اصلاح کی نوبت آنے نہیں دیتا۔ ایک مرتبہ سارے فریق اپنے اپنے دائرۂ کار تک محدود ہو کر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور عوام کو آزادانہ طور پر فیصلہ کا موقع دینے اور اس کو بلا چوں وچراء تسلیم کرنے کا تہہ کر لے تو ملکی معاملات اصلاح کی راہ لے سکتے ہیں اور تضادات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مکالمہ اورمفاہمت کا مطلب اگر حصول اقتدار ہو اور مصلحتیں غالب رکھی جائیں اور قومی دردمندی کااظہار نہ ہو تو خواہ کتنے بھی مکالمے کئے جائیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔جو بھی مکالمہ کیا جائے قومی مفاد میں اور ملکی مسائل کے حل کیلئے خلوص نیت سے ہونا چاہئے اور نیت کوئی اور نہیں ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کا قصد ہو۔ چہروں کی نہیں نظام کی تبدیلی مقصود ہو اور ایک ایسی تبدیلی جو حقیقی ہو اور ملک کے سارے ادارے عوام کا مفاد مقدم رکھ کر فیصلہ کریں۔

مزید پڑھیں:  واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے