nadir shah 3

خواہشات کا ۔۔۔دائرہ

دائرے کے چکر میں جہاں سے ہم بھاگتے ہیں اکثر وہیں کھڑے ہوتے ہیں۔۔دائرے میں گھومنے سے ہم کوشش مسلسل میں تو مصروف رہ سکتے ہیں لیکن یہ کوشش باراور ثابت نہیں ہوتی کیونکہ دائرہ دائرہ ہی ہوتا ہے اور یہ مربع نہیں بن سکتا ۔ہم جدوجہد اور کوشش کرتے رہیں لیکن ہماری ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوتی ہے کیونکہ ہم ناممکن کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ہماری مثال آنکھوں پرکھوے چڑھائے ایک مخصوص دائرے میں چکر کاٹتے کولہو کے اس بیل کی سی ہے ،جو اپنے تئیں سینکڑوں ہزاروں میںسفر طے کرتاہے ،لیکن جب آنکھوں سے پردہ ہٹتا ہے توپھر یہ دیکھ کر حیران بھی نہیں ہوتا کہ وہ تو بس وہیں کا وہیں ہے اورنہ ہی اس میں اتنا شعورہے کہ کسی سے پوچھ سکے کہ میرا صدیوں کا یہ سفرآخررائیگاں کیوں گیا؟”یہ جو دائروی مداریا گولائی حرکت ہوتی ہے اس میں بڑی رمزیں ہیں ۔دائرہ اتنا سادہ نہیں ہے اس میں بڑی گرہیں لگی ہیں۔ دائرہ بہت عجیب ہے اورہر جگہ نظرآتاہے ۔انسان پیداہوا تو بچہ ہوتا ہے پھر جوان اورپھر بوڑھا۔بڑھاپے میں بالکل بچہ ہوجاتا ہے۔یعنی دائرے میں گھومتے ہوئے انسان وہیں آجاتا ہے جہاں سے شروع کرتاہے۔اس بات میں مزیدگہرااتریں توپتہ لگتاہے کہ انسان عدم سے وجودمیں آتا ہے وجودمیں آکرپھر عدم ہوجاتا ہے۔یہاں پھردائرہ یعنی عدم سے وجود اور وجود سے پھر عدم۔کائنات میں ایٹم کے ذرے سے لے کر سورج تک ہر چیز گولائی کے مدارمیں حرکت کر رہی ہے یہاں پھر دائرہ۔ زمین اورسورج بھی دائرے جیسا۔انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قراردی جانے والی ایجادپہیہ بھی دائرے کی شکل میں ہے۔ریاضی جسے ام العلوم کہا جاتاہے صفرکے آنے سے مکمل ہوئی صفربھی ایک دائرہ ہی توہے دنیا کوسنسار بھی کہاجاتا ہے جس کامطلب ہی پہیہ ہے ۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے پوری کائنات کسی بلبلہ نما دائرے میں مقید ہے۔”بات دراصل یہ ہے کہ انسان مقابلہ بازی کی دلدل میں دھنستا چلاجاتا ہے ۔وہ جتنا اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اتنا نیچے کھسکتا جاتا ہے،وہ معاشرے کی ایک ایسے دائرے دارسیڑھی پر چڑھا دیاجاتا ہے جس کے دونوں سرے آپس میں جوڑ دئیے گئے ہوں۔ اسے اپنے سے اوپر لوگوں کو دیکھ کر سب سے اوپرجانے کی کھجلی ہوتی ہے جبکہ اپنے سے نیچے لوگوں کو دیکھ کر سب سے نیچے نہ ہونے پر تسلی بھی ہوتی ہے ۔انسان کی ساری زندگی اسی کھجلی اور تسلی سے عبارت ہوکر رہ گئی ہے، غارت ہوکر رہ گئی ہے۔۔ہم دائرے کی اس سفر میں ” رواں دواں ” ہیں ۔کسی کواوپر دیکھ کر ہم احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ،” ترقی” کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ،وہاں نہ ہونے کا دکھ بھی پیدا ہوتا ہے ،نیچے گرنے کا ڈر بھی رہتا ہے ۔نیچے دیکھ کر ہمیں احساس برتری ہوتا ہے ۔” تنزلی” نہ ہونے کی خواہش پیدا ہوتی ہے،وہاں نہ ہونے کا سکھ ہوتا ہے لیکن وہاں مزید گرنے کا خوف بھی رہتا ہے ۔۔اوپر دیکھ کر ہماری ہمت پست ہونے لگتی ہے تاہم نیچے دیکھتے ہی نیا حوصلہ پیدا ہونے لگتا ہے ۔ہم اوپر والے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور نیچے والا ہماری ٹانگیں کھینچ رہا ہے،دائرے کا یہ سفر انسان کے مستطیل ڈبے میں بند ہونے تک جاری رہتا ہے ۔ اسی طرح معاشرہ یہ سارا چکر چلائے رکھنے کے لئے ہمیں دائرے کے سفر میں عمر بھر پھنسائے رکھتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہم اپنی خواہشات کے دائرے کو اتنا پھیلا دیتے ہیں کہ پوری زندگی کے سفر کے باوجود وہ دائرہ ختم نہیں ہوتا۔۔۔۔ نہ ختم ہونے والی خواہشیں پوری کرنے کے لئے ہم دن رات بھاگتے رہتے ہیں ،جونہی ہماری ایک خواہش پوری ہوتی ہے ہم خود سے عہد کرتے ہیں کہ اس کے بعد مزید کوئی خواہش نہیں،مگر اگلے روز ایک اور خواہش پھن پھیلاکر کھڑی ہوجاتی ہے اور کولہو کے بیل کی طرح اس نئی خواہش کی تکمیل میں جت جاتے ہیں،خواہشوں کا یہ لامتناہی سلسلہ اور اس کی تکمیل ہی ہمارے نزدیک اہم کامیابی ہے اور اسی کامیابی کے مغالطے کے ساتھ ہم بالآخرچھ فٹ کی قبر میں دفن ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!