logo 50

کورونا کا پھیلائو،حکومت اور پی ڈی ایم میں محاذ آرائی

پی ڈی ایم کی قیادت نے کورونا کے باعث پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اتوار کو جلسہ منعقد کرنے کی اجازت نہ دینے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلسہ ہر صورت میںمنعقد ہوگا حکومت حزب اختلاف کے کامیاب جلسوں سے بوکھلا کر کورونا وبا ء کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے جبکہ صوبائی حکومت کے ترجمانوں نے پی ڈی ایم کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلسوں اور بڑے اجتماعات(شادی بیاہ کی تقریبات)پر پابندیوں کا مقصد عوام کو کورونا سے بچانا ہے جلسہ ہواتو کارروائی ہوگی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کسی کو لوگوں کی جانوں سے نہ کھیلنے دیا جائے ادھر ملک بھر سے کورونا وباء کے پھیلائو کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں گزشتہ روز کورونا سے36افراد جاں بحق ہوئے جبکہ2738نئے کیسز سامنے آئے ۔پشاور انتظامیہ نے بھی پی ڈی ایم کے جلسہ کے لئے دی گئی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے پھیلائو کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ایسے میں جلسہ کی اجازت دینا غیر مناسب ہوگا۔اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ سیاسی عمل فردیا جماعت کا بنیادی دستوری حق ہے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے اور اس میں شرکت پر پابندیاں نہیں لگائی جاسکتیں البتہ یہ امر بھی غورطلب ہے کہ کورونا کے آغاز(پہلی لہر)سے اب تک لگ بھگ 3لاکھ 69ہزار افراد اس سے متاثر ہوئے جبکہ7ہزار افراد جاں بحق ۔دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی ان دنوں کورونا وباء کی دوسری لہر کے شدید دورانیہ کا سامنا ہے طبی ماہرین کے مطابق موسم بھی کورونا کے پھیلائو میں مدد گار ہے ان حالات میں بہرطور ٹھنڈے دل سے حقیقت حال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ حزب اختلاف کے جو رہنماء کورونا وباء کی پہلی لہر کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر غفلت برتنے کا الزام لگاتے ہوئے یہ موقف اپناتے تھے کہ لاک ڈائون میںتاخیر کر کے حکومت نے کورونا کے پھیلائو کی راہ ہموار کی وہی قائدین اب کورونا کے حوالے سے حکومت کے پیش کردہ اعدادوشمار کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔کورونا وباء کے پھیلائو کے حوالے سے موجودہ صورتحال کی سنگینی اپنی جگہ مگر حکومت کو اپوزیشن کے اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیئے کہ اس قدرسنگین صورتحال میں حکومتی جماعت کے اجتماعات کیسے منعقد ہورہے ہیں؟بلاشبہ یہ امر خوش آئند ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے کورونا کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس25نومبر کو طلب کرلیا ہے اجلاس بلانے کے لئے وفاقی وزیر اسد عمر نے ان سے درخواست کی تھی بظاہر یہ بات بہت مناسب ہے کہ حزب اختلاف کورونا کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی میں شرکت کرے سپیکر قومی اسمبلی این سی اوکے ذمہ داران اور طبی ماہرین کو مشاورت کے اجلاس میں بلائیں تاکہ وہ تفصیل کے ساتھ صورتحال سے آگاہ کریں اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن ملکر عوام کے اجتماعی مفاد میں فیصلہ کریں۔جہاں تک حکومتی اقدامات اور پابندیوں کا معاملہ ہے تو اس پر بھی مثبت انداز سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ درست ہے کہ کسی مشاورت اور بریفنگ کا اہتمام کئے بغیر پشاور انتظامیہ کی جانب سے پشاور میں پی ڈی ایم کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ دینے سے شبہات پیدا ہوئے کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس حوالے سے ایسا طریقہ کار اپنایا جاتا جس سے بداعتمادی کی گنجائش ختم ہو جاتی۔ملک میںکورونا کے پھیلائوسے پیدا شدہ صورتحال کسی سے مخفی نہیں ماضی کی طرح اس بار بھی عوام کے پاس اس حوالے سے حکومتی ذرائع سے سامنے آنے والی صورتحال اور اعدادوشمار کو جانچنے کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ۔ پی ڈی ایم کا یہ سوال بجا طور پر درست ہے کہ جب کورونا وباء کے پھیلائو میں شدت کا حکومت خود اعتراف کررہی ہے تو حکمران جماعت نے پچھلے چند دنوں کے دوران اسلام آباد،لاہور اور فیصل آباد میں اس کے باوجود اجتماعات کیوں منعقد کئے کہ بند مقامات(شادی ہالوں اور دیگر ہالز)پر تقریبات کے انعقاد کو کورونا کے پھیلائو میں معاون قراردیا جارہا ہے؟پی ڈی ایم کے ایک مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کورونا کی مجموعی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب حکومت جانتی تھی کہ بند مقامات(ہالز) میں تقریبات کا انعقاد خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تو پھر اس نے اپنی تقریبات ملتوی کیوں نہ کیں بلکہ ان چند تقریبات کے انعقاد کے بعد شادی ہالوں اور دیگر ہالز میں تقریبات کے انعقادپر31جنوری تک پابندیاں لگادیں۔اصولی طور پر حکومت کو ان سوالات کا جواب دینا چاہیئے تاکہ یہ تاثر دور ہو کہ کورونا وباء کے پھیلائو کے نام پر اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیوں (جلسوں)پر پابندی کسی مخصوص حکمت عملی کا حصہ نہیں یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ کورونا کے پھیلائو اور دوسری لہر میں موسمی حالات کی بنا پر ماضی کے مقابلہ میں شدت کی اطلاعات اکتوبر کے اوائل سے سامنے آرہی تھیں ان اطلاعات کے پیش نظر اب تک کیا ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے اور یہ کہ خود حکومتی رہنمائوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کیوں نہ کیں؟بہر طور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن موجود صورتحال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی