1 302

اسرائیل سے تعلقات کیلئے دباؤ؟

اسرائیل کے اخبار ”ہیرٹز” نے وزیراعظم عمران خان کے ایک پاکستانی ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے امریکہ اور ایک مسلمان ملک دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس کیساتھ عمران خان نے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی پالیسی اور تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے باوجود پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور اس کیلئے فلسطینیوں کا اطمینان بنیادی شرط ہے۔ ٹی وی اینکر نے عمران خان سے پوچھا کہ دوسرا مسلمان ملک کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ رہنے دیں، ہمارے اس ملک کیساتھ اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان کی معاشی مجبوریوں میں وہ ہماری مدد کرتا ہے۔ جب پاکستان خود انحصار ملک بنے گا تو آپ نام پوچھ سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے دوسرے ملک کے حوالے سے کنفیوژن کو اسرائیلی اخبار نے مضمون کیساتھ عمران خان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی تصویر لگا کر بڑھا دیا۔ اصل حقیقت کیا ہے یہ تو حکمرانوں کو ہی معلوم ہوگا مگر عمومی طور پر وزیراعظم کا اشارہ متحدہ عرب امارات کی جانب سمجھا جانا تھا جو حال ہی میں اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کیساتھ سفارتی، تجارتی اور عسکری تعلقات قائم کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ دوسرے مسلمان ملکوں کے تعلقات قائم کرانے میں پرجوش بھی ہے۔ اسرائیلی اخبار نے اس اشارے کا رخ سعودی عرب کی طرف موڑ دیا جس کے بعد دفتر خارجہ کو وضاحت کرنا پڑی کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرانے کیلئے کوئی دباؤ نہیں۔ دفتر خارجہ کی یہ تردید عذرگناہ بد تر از گناہ والی بات ہے۔ عمران خان نے ایک ٹی وی چینل کو آن دی ریکارڈ کہا کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے امریکہ سمیت ایک اور ملک کا دباؤ ہے۔ اس واضح مؤقف کے بعد دفتر خارجہ کی یہ تردید کہ پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں لایعنی سی بات ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ جو بات فلسطینی صدر محمود عباس کو سمجھ آگئی وہ سمجھنے میں ہمارے اپنے ہی دفتر خارجہ کو اس قدر مشکل کیوں پیش آئی۔ عمران خان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پڑنے والے دباؤ کو مسترد کرنے کے اعلان پر فلسطینی صدر محمو دعباس نے انہیں ایک خط لکھ کر پاکستان اور عمران خان کے مؤقف کی زبردست تعریف بھی کی اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ عمران خان کے بعد سوڈان کے وزیراطلاعات نے بھی یہ انکشاف کیا کہ امریکہ ان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے بے پناہ دباؤ ڈال رہا ہے تاہم سوڈان کی طرف سے اس فیصلے کا انحصار حکومت، فوج اور پارلیمنٹ کی منظوری پر ہے۔ سوڈان نے ابھی باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا مگر اس پر آمادگی ظاہر کرنے والا تیسرا عرب ملک ہے۔ اس سے پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق سوڈان بھی جلد ہی اسرائیل کیساتھ تعلقات قائم کرلے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح اسرائیل کو قبولیت دلوانے کیلئے لٹھ برداری کا رویہ اپنا رکھا تھا ان کی انتخابی شکست سے اس جارحانہ مہم میں کمی آسکتی ہے۔ یوں تو اسرائیل کی نازبرداری میں کوئی بھی امریکی صدر پیچھے نہیں رہا مگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اسرائیل نواز یہودی داماد کے زیراثر تھے یا کوئی اور وجہ مگر وہ اپنے دور میں اسرائیل کی راہوں کے کانٹے پلکوں سے چننے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے تھے۔ اس معاملے میں کئی مسلمان ملک امریکہ کیلئے سہولت کاری بھی کر رہے تھے۔ عمران خان نے جو بات کی وہی حقیقت ہے کہ امریکہ اور کئی عرب ممالک پاکستان پر شدید دباؤ ڈالے ہوئے تھے۔ ٹرمپ کے شکست کے بعد انہوں نے برملا اس کا اعتراف کرنا ضروری سمجھا اور اسی سے حوصلہ پاکر سوڈان کے وزیراطلاعات نے بھی پریس ٹی وی کو انٹرویو دیکر امریکی دباؤ کو ایکسپوز کر نا ضروری سمجھا۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ مسلمان ممالک برضا ورغبت نہیں بلکہ امریکہ کے دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کرتے جا رہے ہیں اور یہ کہ اسرائیل کیساتھ تعلقات کا قیام مسلمان ملکوں کی کوئی معاشی ضرورت اور مجبوری ہرگز نہیں بلکہ ان کی کمزوری اور مصلحت کے باعث امریکہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ مسلمان دنیا اسرائیل کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرلے۔ یہ ایسے عالم میں کیا جا رہا ہے جب فلسطینی عوام اپنی زمینوں اور آبائی علاقوں سے محروم ہوکر نسل درنسل پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کی زمنیوں کے مالک ومختار یورپ اور امریکہ سے آنے والے سفید فام یہودی بن چکے ہیں جو بچھی کھچی زمینیں تھیں اس پر نت نئی یہودی بستیاں تعمیر ہو رہی ہیں اور اسرائیل کی توسیع پسندی کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ کارگر نہیں ہو رہی۔ اس ناانصافی کی موجودگی میں اسرائیل کو موجودہ حالات میں تسلیم کرنا ظالم کا معاون اور مظلوم پر ظلم میں حصہ دار بننا ہے۔ خوش آئند بات یہ کہ پاکستان ہر قسم کے دباؤ کے باجود اپنے لئے ایک واضح لکیر کھینچے ہوئے ہے۔ پاکستان فلسطینیوں کو اسرائیل کے آگے پھینک کر کشمیر میں بالکل ایسے ہی مقدمے کی وکالت نہیں کر سکتا۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟