2 343

بڑھاپا ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات”

جب تک جوانی دیوانی رہتی ہے، آدمی کٹی پتنگ کی طرح ادھر ادھر جھونکے کھانے میں خوش رہتا ہے مگر ایک دن بڑھاپے کی کٹھن گھڑیاں ان تک پہنچتی ہیں اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ وہ اتنا کیوں بدل گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بچپن اور بڑھاپا تقریباً برابر کا زمانہ ہے کیونکہ بچپن میں ماں باپ بہن بھائی اور دیگر قریبی رشتے دار اس کا خیال رکھتے ہیں تو اسی طرح بڑھاپے میں اس کی اولاد اور اس کے قریبی رشتے دار اس کے ضعف اور بزرگی کی وجہ سے اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اس توجہ اور خیال میں فرق ضرور ہے لیکن ایک بات قدر مشترک ہے کہ جس طرح ایک بچہ اپنے بچپن میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کے پیار اور توجہات کا طالب ہوتا ہے اسی طرح بڑھاپے میں انسان کو بہت زیادہ آرام وآسائش اور زر وزمین کی ہوس نہیں ہوتی ہے البتہ اس کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ اس کی اولاد جسے اس نے بڑے ناز ونعم میں پال پوس کر بڑا کیا ہے اور بچپن میں اس کی تمام آسائش وسہولیات کا خیال رکھا ہے آج وہ بڑھاپے میں اتنا ہی نہیں تو کم ازکم دن بھر میں دوچار گھڑی اس کے پاس بیٹھ جائے، اس سے پیار کی دوچار باتیں ہی کرلے، یہی اس کے سکون قلب کیلئے کافی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بوڑھوں کو عام طور پر ”ضروری مصیبت” سمجھ کر ہی گوارا کیا جاتا ہے۔
”یہ ایک فطری عمل ہے کہ جیسے جیسے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے وہ مزید مشکلات ومصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ موت یا موت کا احساس یا بڑھتی ہوئی عمر انسان کو مصائب وتکالیف اور پریشانیوں میں مبتلا نہیں کرتی بلکہ مقصد کے ناقابل حصول ہونے کا احساس اس کو پریشانیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ نوجوانی میں اس کو اُمید کی کرن نظر آتی ہے اور اس دور میں اس کے پاس وافر وقت بھی موجود ہوتا ہے، اس کے اندر توانائی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، وہ صحت مند اور تندرست ہوتا ہے اور اس نے ابھی تک مایوسی اور پریشانی کا ذائقہ نہیں چکھا ہوتا ہے۔ آہستہ دن بدن جب اس کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے تو اس پر مایوسی چھانے لگتی ہے، خواب بکھر جاتے ہیں، طرح طرح کے خیالات اور طرح طرح کے ڈر اس کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ جن کاموں کو کرتے وقت اس کو کسی قسم کا خیال بھی نہ ہوتا تھا، اب ان پر مواخذہ کا خوف اس کو ستاتا ہے۔ آخرت کی روایتیں جوکہ جوانی کے دنوں میں محض افسانہ معلوم ہوتی تھیں، اب ان کے سچ ہونے کا امکان اس کو پریشان کرتا ہے اور بالآخر وہ اپنے اعمال کی نیکی وبدی کا جائزہ لینا شروع کرتا ہے۔ برے اعمال کی گراں باری کے احساس کیساتھ ہی قوت متخیلہ اس کے سامنے مستقبل کو ایک بھیانک ترین شکل میں پیش کرتی ہے اور وہ ڈر کے مارے بچوں کی طرح نیند میں چونک پڑتا ہے۔
جوں جوں انسان بوڑھا ہوتا چلا جاتا ہے توں توں اس کے اندر یہ احساس اسی قدر طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے، بچے بڑے ہوگئے ہیں، وہ اپنے خاندانوں میں مگن ہیں، جب اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو وہ خود کو بیکار محسوس کرتا ہے۔جب تک وہ جوان تھا اور کماتا تھا تو خاندان کا انحصار اس کے زوربازو پر تھا، گھربار میں اس کا بڑا رعب اور دبدبہ ہوتا تھا مگر جب وہ کمانے کے لائق نہیں رہا تو خاندان پر بوجھ بن گیا۔ یہی زندگی ہے اسی لئے اقبال نے کہا تھا کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات” بقول شخصے اس کا حاصل لاحاصل ہوکے رہ جاتا ہے۔ اس کی قوت کمزوری بن جاتی ہے، فکر مسدود ہو جاتی ہے۔ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کے آگے ایک دیوار ہے، اس کے پیچھے دیوار ہے، وہ اپنے ہی گھر میں خود کو مہمان محسوس کرنے لگتا ہے۔ اپنوں کے ہمراہ چلتے چلتے اس کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ بیگانوں کیساتھ چل رہا ہے۔ ساتھی بچھڑ جاتے ہیں، یوں وہ بھیڑ میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ اس کرب اور دکھ سے بچنا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے نکل جانا چاہتا ہے، اپنے وجود میں رہنا اس کو ناممکن نظر آتا ہے اور وجود سے نکلنا بھی اتنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ زندگی میں اتنی مہلت نہیں ملتی کہ وہ اس کو دوبارہ شروع کرسکے، جو ہوگیا سو ہوگیا۔ بڑھاپے کے تاریک پہلو پر بحث کرنے کے بعد اب ہم اس کے مثبت پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بقول ایک فلسفی ”بڑھاپے کا مطلب ہے ابدی زندگی کی طرف اُڑان۔ بڑھاپا آہستہ آہستہ موت کے پار دیکھنے کا نام ہے۔ بڑھاپا حواس سے ماورا دنیا سے مانوسیت ہے۔ بڑھاپا اپنی فصل لاتا ہے، بڑھاپا اپنی دانش لاتا ہے، بڑھاپا اپنا حسن لاتا ہے۔ جب جوانی کی سب حماقتیں ختم ہو چکی ہوتی ہیں، جب بچپنے کی ساری لاعلمی ختم ہوچکی ہوتی ہے، تب انسان دنیا کی مادی تجربات سے ماورا ہوکر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ بلندی پر سے دیکھ سکتا ہے جبکہ دنیا نیچے تاریک مایوس وادیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں انسان اپنے سیکھے ہوئے تجربات سے دوسروں کو مستفید کرسکتا ہے۔ یہ کسی بھی شعبہ زندگی کے اُستاد کیلئے بہترین وقت ہوتا ہے کیونکہ اسی مقام پر پہنچ کر انسان کو پتہ چل جاتا ہے کہ جوانی کی بیشتر خواہشیں حقیقتاً بچگانہ تھیں مگر بدقسمتی سے زیادہ تر لوگوں کی صرف عمر بڑھتی ہے مگر وہ خود بڑے نہیںہوتے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس