p613 193

تاجربرادری احتجاج نہیں تعاون کرے

خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے اموات میں تیزی نہایت فکرمندی کا باعث امر ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ایک روز میں کورونا وائرس سے 9 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ مزید 382 نئے کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ دریں اثناء کورونا پھیلاؤ خدشات کے پیش نظر صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ پشاور میں دس علاقوں کو حساس قرار دئیے جانے کے بعد سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا۔ انتظامیہ کے مطابق سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ ان علاقوں میں محکمہ صحت کے ماہرین کی ہدایات پر کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے نتیجے میں کیا گیا۔ کورونا پھیلاؤ روکنے کیلئے اقدامات کی مزاحمت اپنی جگہ سنگین مسئلہ ہے۔ پشاور میں دکانوں کی بندش کے معاملے پر ضلعی انتظامیہ اور تاجر آمنے سامنے آگئے ہیں۔ دکانوں کی بندش سے تاجر احتجاج پر اُتر آئے ہیں۔ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر ضلعی انتظامیہ نے مزید 400 دکانیں سیل کرنے پر تاجروں نے نہ صرف سڑک بلاک کرکے احتجاجی مظاہرہ کیا بلکہ کئی دکانداروں نے تالے توڑ کر دکانیں دوبارہ کھول دیں۔ تاجروں نے دکانیں کھولنے تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورونا کی وباء کے پھیلاؤ میں بجائے اس کے کہ ہم شہری اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور تاجر برادری تعاون کرے اُلٹا حکومت اور انتظامیہ کیساتھ ساتھ خود اپنے آپ اور شہریوں کو خطرات میں ڈالنے کی راہ اپنائی جارہی ہے جس کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ امر واقع یہ ہے کہ بے احتیاطی سے یہ وبا تیزی سے پھیلتی ہے، مارکیٹوں اور ہجوم والی دیگر جگہوں کے معاملے میں بھی حکومت کسی واضح نقطہ نظر تک پہنچنے میں مشکل محسوس کر رہی ہے۔ معیشت کو چلتا رکھنے کیلئے لاک ڈاؤن یقینا قابل قبول نہیں مگر لاک ڈاؤن کے آپشن کو ٹالنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل ناگزیر ہے لیکن مارکیٹوں میں اس معاملے کو اسی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ ماسک کی احتیاط یا دیگر احتیاطیں جو اس خطرناک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ضروری ہیں مارکیٹوں میں کہیں بھی ان کی پابندی نظر نہیں آتی۔ پرہجوم تجارتی مراکز میں لوگ بغیر ماسک کے اور بغیر فاصلے کے پھرتے ہیں، ان حالات میں وائرس کا پھیلاؤ رکنے یا کم ہونے کا خیال ایک غیرفطری تصور ہی قرار دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا یہ طرز عمل وائرس کے پھیلاؤ کا خود ایک بڑا سبب ہے اور فی الفور اس روش کو تبدیل نہ کیا گیا تو نظام صحت پر کورونا وبا کا ناقابل یقین بوجھ حقیقت بن جائے گا اور مجبوراً لاک ڈاؤن سے معیشت کا پہیہ پھر جامد ہوگا۔ لاک ڈاؤن یا ادارہ جاتی بندشیں مسائل کا حل ہوں یا نہ ہوں مگر کئی نئے مسائل کامؤجب ضرور ہیں چنانچہ ہمیں کھلی بے احتیاطی اورمکمل بندش کے درمیان کسی صورت کا بندوبست کرنا چاہیے جہاں کاروبار زندگی بھی معمول کے مطابق جاری رہ سکے اور وبا کا پھیلاؤبھی نہ ہو۔
وزیراعلیٰ کا احسن اقدام
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے اخپل کمپلینٹ سیل کا دورہ کرکے بذریعہ ٹیلیفون براہ راست عوامی شکایات سننے کیساتھ ساتھ کمپلینٹ سیل میں عوامی شکایات کے ازالے بارے شکایات کنندگان سے فیڈ بیک لینے کی ذمہ داری ادا کرکے سرکاری حکام کو باور کرایا ہے کہ وزیراعلیٰ کسی بھی وقت ان کی کارکردگی سے براہ راست باخبر ہوسکتے ہیں، غفلت برتنے والوں کیخلاف برموقع کارروائی سے عملاً سرکاری افسران و ملازمین کو تنبیہ ہوئی ہے کہ اب غفلت برتنے کی گنجائش نہیں اور جو کرے گا وہ بھرے گا۔ ہم ایک مرتبہ پھر اس تجویز کا اعادہ کریں گے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اس احسن عمل کو جاری رکھیں اور وقتاً فوقتاً حالات سے براہ راست آگاہی شکایات کے حوالے سے باخبر ہونے، ان کے ازالے اور غفلت کے ذمہ دار سرکاری اہلکاروں کیخلاف اسی طرح کی کارروائی جاری رکھیں جب تک سرکاری عمال کو کڑے اور اچانک احتساب کا خوف نہ ہوگا وہ چوکنے نہیں ہوں گے اور نہ ہی عوامی شکایات میں کمی آئے گی اور عوام مسائل کا شکار رہیں گے۔
پی ٹی وی قومی چینل ہے سرکاری نہیں
چیئرمین پاکستان ٹیلی ویژن نعیم بخاری کا یہ استدلال نہایت عجیب ہے کہ پی ٹی وی پر حکومت اور اپوزیشن کو برابر وقت نہیں ملے گا، یہ پی ٹی وی ہے کوئی دوسرا ٹی وی چینل نہیں ہے، یہ سرکاری چینل ہے جو کہ صرف حکومت کی نمائندگی کرے گا۔ اگرچہ بعض عناصر نعیم بخاری کو چیئرمین پی ٹی وی لگانے پر معترض ہیں لیکن بہرحال اس عہدے کیلئے وہ ناموزوں آدمی نہیں وکالت کیساتھ ساتھ ان کو ابلاغ عامہ کا بھی بڑا تجربہ ہے لیکن سرکاری ٹی وی کو صرف سرکار کیلئے وقف کرنے کے ان کے عمل پر حیرت اس لئے ہوئی ہے کہ اولاً یہ قومی چینل ہے اور تصویر کے دونوں رخ دکھانا دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح پی ٹی وی کی بھی ذمہ داری ہے۔ علاوہ ازیں یہ ادارہ عوام کے ٹیکس کی رقم سے چلتا ہے، ساتھ ہی عوام ماہوار پینتیس روپے بجلی کے بلوں کیساتھ باقاعدگی سے ٹی وی فیس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ بجلی صارفین میں حکومت کے حامی اور مخالف دونوں قسم کے لوگ شامل ہیں اور یہ ان کا حق ہے کہ وہ ہر سیاسی جماعت کے مؤقف اور پالیسیوں سے آگاہ ہوں۔ پی ٹی وی کے متروک چینل کی حیثیت اختیار کر جانے کی سب سے بڑی وجہ ہی اس کی یکطرفہ اور جانبدارانہ پالیسی ہے۔ پی ٹی وی کو حقیقی معنوں میں قومی چینل بنانے کا تقاضا یہ ہے کہ اسے سرکار کا ترجمان نہ بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی