1 304

جینوسائیڈ واچ کا انتباہ

بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقبوضہ جموں وکشمیر کے صدر رویندر رینا کا ایک ویڈیو کلپ ان دنوں عام ہے جس میں انہوں نے وادی سے تعلق رکھنے والے پیپلز لائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے راہنماؤں فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی وغیرہ کے بارے میں کہا کہ آپ دیکھیں ان کیساتھ آگے کیا ہونے والا ہے۔ یہ سب ”جے شری رام” کہنے پر مجبور ہوں گے۔ اخبار نویس حیرت سے سوال کرتا ہے کہ گپکار ڈیکلریشن والے جے شری رام کہیں گے تو رویندر رینا کہتے ہیں بالکل یہ جے شری رام کہنے پر مجبور ہوں گے۔ بظاہر تو یہ ایک سیاسی بیان ہے مگر اس کے پیچھے ایک ذہنیت جھلک رہی ہے۔ اس سوچ کی سنگینی ان حالات میں مزید بڑھ جاتی ہے جب بھارت ایک منظم حکمت عملی کے تحت کشمیر کے مسلم تشخص اور شناخت کو تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور وہ تیزی سے اس راہ پر سفر بھی کر رہا ہے۔ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد قوانین کو اس انداز سے تبدیل اور ترتیب دیا جا رہا ہے کہ بھارت کیلئے کشمیر کی زمنیوں پر قبضہ کرنا اور یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا آسان ہو جائے۔ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، سجاد لون کی پیپلز کانفرنس شامل ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت مسلمان ہے اور وادی سے تعلق رکھتی ہے گوکہ کشمیر کا آزادی پسند کیمپ ان شخصیات اور جماعتوں کو بھارت کا مقامی چہرہ قرار دیتا ہے اور کشمیریوں کو ان سے دور رہنے کا کہتا ہے مگر یہ جماعتیں بھی زمینی حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔ سید علی گیلانی نے بستر علالت سے ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کشمیری عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ آنے والے پنچایتی انتخابات میں پیپلز الائنس کی جماعتوں سے دور رہیں کیونکہ ان میں اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں کوئی فرق نہیں۔ کچھ ہی دن بعد کشمیر میں ضلعی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں، بی جے پی ان انتخابات کو جیتنے کی ہر ممکن منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ مسلم اکثریتی وادی میں بلدیاتی اداروں کے ذریعے اپنی پاور بیس بنا کر اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد کیا جائے جس کے بعد بی جے پی کو کشمیر میں اپنا ایجنڈا لاگو کرنے میں آسانی رہے گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس حکمت عملی کو ناکام بنانے کیلئے پیپلز الائنس نے بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان جماعتوں کے سیاسی نظریات سے اختلاف اپنی جگہ مگر ان سے ”جے شری رام” کہلوانے کی خواہش میں پوری ذہنیت جھلک رہی ہے۔ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور دہلی کے منصوبہ سازوں کے مستقبل کے ارادوں اور عزائم کا اظہار ہے۔ ایسے میں جب عملی طور بھی اس جانب تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہو تو صورتحال مزید خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ کشمیر کی زمینیں بھارت کے نشانے پر ہیں۔ کشمیر کی تہذیب کا اہم حصہ بکروال کمیونٹی ہے یہ خانہ بدوش اپنے مال مویشی کو لیکر موسم کیساتھ ساتھ محو سفر رہتے ہیں۔ موسم کیساتھ ان کی منزل اور راستے بھی بدلتے جاتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں یہ لوگ پہاڑی چوٹیوں پر بسیرا کرتے ہیں اور موسم کی کروٹ کیساتھ ہی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اب بھارتی حکومت گرمیوں میں بکروالوں کے زیراستعمال زمینوں کو سرکار کی ملکیت قرار دیکر اپنے قبضے میں لے رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کشمیر آج اسی خوفناک اور نفرت بھرے مائنڈ سیٹ کے اژدھا کے حصار میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ یہ اژدھا متعصب بھی ہے نفرت کے جذبات سے لبریز بھی ہے اور تاریخ کے پہئے کو اُلٹا گھمانے پر یقین بھی رکھتا ہے۔ عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ گریگوری کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانیت کیخلاف منظم جرائم جاری ہیں، آسام اور کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم نسل کشی سے پہلے کا مرحلہ ہے۔ جینوسائیڈ واچ کا یہ خدشہ حقیقت میں آنے والے دنوں کے حوالے سے ایک سنگین انتباہ ہے۔ بھارت میں برسوں کی مسلسل محنت سے انتہا پسندوں نے اپنے لئے ایک ایسا لیڈر ڈھونڈ نکالا ہے جو آج پورے بھارت کا حکمران ہے۔ بھارت کے اندر اسے قوم پرستی کا نشان اور ہندومت کے احیاء کا علمبردار سمجھا اور جانا جاتا ہے۔ بین الاقوامی دنیا میں اس کی حرکتوں پر کوئی بڑا ردعمل ظاہر نہیں کیا جارہا کیونکہ اس شخص کا نشانہ اور ہدف مسلمان ہیں جو عالمی سطح پر اس وقت اچھوت بنا دئیے گئے جن کا خون پانی سے زیادہ سستا اور ارزاں ہے۔ بھارت میں نریندر مودی جیسے شخص کو ایک منصوبے کے تحت برسراقتدار لایا گیا تھا، اس کے پیچھے بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنانا اور مسلمانوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر برباد کرنا اور بھارت کے اوپر سے مسلمان حکمرانوں اور تہذیب کے تمام اثرات کھرچ کر پھینکنا تھا۔ مودی کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں تھا، اُلٹا مسلمان حکمرانوں نے اسے مالائیں پہنا کر اور گرم جوش معانقوں کے ذریعے انعام واکرام سے نواز دیا۔ مودی نے بھارت کو جس راہ پر ڈال دیا ہے اب یہ اس راہ سے ہٹتا ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ مسلمان دشمنی اب ریاست کا مائنڈ سیٹ بن گئی ہے۔ دنیا نے کشمیر میں ہونے والے قتل عام اور مظالم پر بھارت کا ہاتھ روکا ہوتا تو آج بیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کا وجود اور مستقبل یوں داؤ پر لگا نہ ہوتا۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت