5 249

آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے

حالات جیسے بھی ہوں زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے، آج جو منظرنامہ بن رہا ہے وہ ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے، کووڈ19 کی دوسری لہر کے حوالے سے بہت زیادہ خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر سمیت عملے کے تین افراد کورونا میں مبتلا ہوگئے ہیں، تازہ ترین اطلاع کے مطابق اب کورونا میں مبتلا عملے کی تعداد20 کا ہندسہ عبور کر گئی ہے جو یقینا باعث تشویش ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے بھی تواتر سے جاری ہیں، لوگ جوق درجوق ہر قسم کے خطرے سے بے نیاز ہوکر ان جلسوں میں شرکت کر رہے ہیں۔ وطن عزیز میں کورونا کی پہلی لہر کے وقت بھی اس خطرناک وائرس کے حوالے سے متضاد قسم کے بیانات سننے کو ملتے تھے اب بھی وہی صورتحال ہے، لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے لقمہ اجل بننے کے بعد بھی بہت سے لوگ کورونا کو لفٹ نہیں کراتے، ان کا یہ خیال ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے لوگوں کو روکنے کیلئے کورونا سے ڈرایا جارہا ہے، دوسری بیماریوں سے مرنے والوں کو بھی حکومت کورونا کے کھاتے میں ڈال رہی ہے، اب کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے؟ ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ جنگ میں سچائی سب سے پہلے شہید ہوجاتی ہے، آج یہی صورتحال ہے دونوں طرف سے اپنے اپنے مفادات کیلئے جھوٹ اتنے تسلسل کیساتھ بولا جارہا ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ اصل صورتحال کیا ہے؟ مداری اپنی اپنی ڈگڈگی بجا کر تماشا دکھانے میں مصروف ہیں اور عوام ہمیشہ کی طرح ڈگڈگی کے سامنے ناچنے پر مجبور ہیں۔ عوام کا خیال ذہن میں آتے ہی ان کے مسائل یاد آجاتے ہیں، وطن عزیز کے قیام کے بعد آج تک ان کے مسائل کے حوالے سے کسی نے بھی سنجیدگی کیساتھ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی، انہیں جن مسائل کا سامنا کل تھا انہی مسائل کا سامنا آج بھی ہے، ان کیساتھ ہر دور میں وعدے کئے گئے لیکن ارباب ختیار کے کئے گئے سارے وعدوں کی صورت بھی وعدۂ محبوب جیسی تھی جو کبھی ایفا نہیں ہوتا۔ اب دسمبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، آنے والے چند دنوں میں بارشوں کا سیزن شروع ہونے والا ہے، سردی کی شدت بڑھے گی تو سوئی گیس ناپید ہوتی چلی جائے گی، پشاور میں گیس کی لوڈشیڈنگ سے نالاں لوگوں کی پریشانیوں میں اس وقت بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے جب گیس کی عدم موجودگی یا لوڈشیڈنگ کے باوجود انہیں بھاری بھر کم بلوں کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کے بل صارفین کو بہت زیادہ پریشان کرتے ہیں، تنخواہ دار طبقہ تو سب سے پہلے بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کیلئے رقم کا بندوبست کرتا ہے اور ان کے گھریلو بجٹ کا توازن بگاڑنے میں یہ بل بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بات بددیانتی اور بے حسی کی ہے، اپنی اپنی سوچ اور حیثیت کی بات ہے جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ لوگوں کو لوٹ رہا ہے، لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جارہے ہیں، جہاں عوام ایک طرف حکومت کی بے حسی کا رونا رو رہے ہیں وہاں ان کے اپنے بھائیوں کی طرف سے بھی لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ پشاور کے نانبائی پندرہ روپے میں انتہائی ناقص آٹے والی روٹی فروخت کررہے ہیں، وہ کہتے ہیں کرنسی کی شرح روزبروز کم ہو رہی ہے گیس کے بل زیادہ آتے ہیں، آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، تو ہم کیا کریں؟ بعض دکانوں پر دس روپے والی روٹی بھی دستیاب ہے لیکن اسے روٹی کہنا روٹی کے نام پر دھبا ہے، پنجاب کے پھلکے بھی اس سے بھاری ہیں۔ اسی طرح نجی مذبح خانوں میں بیمار جانور حلال کئے جارہے ہیں، ان مذبح خانوں میں ذبح شدہ جانوروں میں پانی بھر دیا جاتا ہے، چند سکوں کے لالچ میں کتنے گھٹیا فعل کا ارتکاب کیا جاتا ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، اپنے گریباں میں جھانکنے کی زحمت کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ کس کس بات کا ماتم کیا جائے، ایک بات ہو تو بندہ رودھو کر چپ ہوجائے لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، اس وقت پورے پشاور شہر میں اور خاص طور پر لاری اڈوں اور بس سٹاپوں پر خورد ونوش کی غیرمعیاری اشیاء فروخت کی جارہی ہیں، ان مضر صحت اشیاء کا سب سے بڑا مرکز حاجی کیمپ اڈہ ہے، یہ اور اس طرح کے دوسرے بیسیوں مسائل حکومت وقت کی توجہ کے منتظر ہیں مگر حکومت کو اس لئے موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، پی ڈی ایم کے جلسوں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے اور یہ کوئی آج کی کہانی نہیں ہے ہمارے یہاں جو حکومت بھی بنتی ہے وہ اقتدار میں آتے ہی حزب اختلاف کیساتھ لپا ڈگی میں مصروف ہوجاتی ہے۔ جب اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہوں تو پھر عوامی مسائل کس کو یاد رہتے ہیں، یہ کھیل جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک صحیح معنوں میں عوام بااختیار نہیں ہوجاتے، جسے عرف عام میں سچی جمہوریت کہتے ہیں۔ اب تک تو جمہوریت کے نام پر عوام کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے، ان کے مسائل پہلے بھی حل طلب تھے اور آج بھی ان کے حل ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟