p613 199

مشرقیات

امام ابن جوزی بغدادی فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا کہ ایک خراسانی شخص بغداد میں آیا جو حج کے لئے جا رہا تھا۔ اس کے پاس ایک دوست کا موتیوں کا قیمتی ہار تھا جس کی قیمت ایک ہزار دینار تھی۔ ہار کے گم ہونے کا خطرہ تھا تو وہ ایک عطار کے پاس آیا جس کی اچھی شہرت تھی اس کے پاس اس کو بطور امانت رکھ دیا کہ واپسی پر لے لوں گا اور حج پر چلا گیا۔ جب وہ حج سے واپس آیاعطار سے ہار واپس مانگنے گیا تو عطار نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیااور دکان سے دھکے دے کر نکال دیا۔ وہ حاجی پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ خدا کے کسی نیک بندے نے تنہائی میں کہہ دیا کہ بادشاہ( عضدالدولہ) کے پاس جائو ان کو ایسے امور میں حق تعالیٰ نے بڑی فراست دی ہے۔ تو وہ حاجی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس سے پورا واقعہ معلوم کرکے عضد الدولہ نے فرمایا کہ تم کل صبح جاکر اس عطار کی دکان پر بیٹھ جائو’ اگر وہ نہ بیٹھنے دے تو اس کے سامنے کسی دکان پر بیٹھ جائو اور مغرب تک بیٹھے رہو۔ اس سے بات نہ کرو’ اسی طرح تین دن کرو’ چوتھے دن ہم ادھر سے گزریں گے اور ہم کھڑے ہو کر تم سے السلام علیکم کریں گے تم نے کھڑے نہیں ہونا اور نہ وعلیکم السلام سے آگے کوئی اور لفظ بولنا۔پھر ہماری واپسی کے بعد تم اس عطار سے اپنے اس ہار کا ذکر چھیڑ دینا پھر جو کچھ وہ تم کو جواب دے اس کی اطلاع مجھ کودینا۔ ( ہے کوئی اس دور کا حکمران جو ایک مظلوم کے حق دلانے میں اتنی محنت اور دانشمندی کا ثبوت دے؟) اس ہدایت کے مطابق یہ شخص عطار کی دکان پر بیٹھنے کے لئے پہنچا مگر اس نے نہ بیٹھنے دیا تو وہ سامنے کی دکان پر بیٹھ گیا اور تین دن تک بیٹھتا رہا۔ جب چوتھا دن ہوا تو عضد الدولہ ایک شاندار جلوس کے ساتھ ادھر آئے اور جب اس خراسانی کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور السلام علیکم کہا۔ اس نے اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہی وعلیکم السلام کہا۔ بادشاہ نے کہا بھائی صاحب آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔ ( یہ ساری گفتگو خائن اور ظالم عطار اور عوام سن رہے تھے) اس نے جواب میں جیسا کہ طے ہوا تھا لمبی گفتگو سے بچتے ہوئے ‘ معمولی ہاں ہوں کی۔ جب بادشاہ رخصت ہوگئے تو عطار نے حاجی سے کہا کہ صاحب بڑا افسوس ہے کہ آپ نے یہ نہ بتایا کہ وہ ہار آپ نے ہمارے پاس کس زمانے سے رکھا تھا اب وہ ڈھونڈنے کے لئے کھڑا ہوا’ ادھر ادھر ہاتھ مارنے کے بعد ایک تھیلا الٹایا جس میں سے ہار گرا تو کہنے لگا درحقیقت میں بالکل ہی بھول گیا تھا۔خراسانی نے اپنا ہار لے لیا پھر وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اس کے سامنے اپنے حاجب( محافظ) کو وہ ہار دے کر عطار کی دکان پر بھیجا جس نے عطار کو پکڑ کر وہ ہار اس کے گلے میں ڈال دیا اور اس کو دکان کے دروازے پر ہی پھانسی دے کر لٹکا دیا اور منا دی کرادی گئی کہ یہ اس شخص کی سزا ہے کہ جس کے سپرد ایک امانت رکھی گئی مگر وہ جاننے کے باوجود منکر ہوگیا اور بے گناہ ایک مسافر کو پریشانی میں مبتلا کئے رکھا۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس