3 251

آمد پہ تیری عطر وچراغ وسبو نہ ہو

جب سے فواد چوہدری کو وزیر سائنس وٹیکنالوجی لگایا گیا ہے، موصوف کچھ نہ کچھ نیا ایسا ضرور کرتے رہتے ہیں جس پر ”انوکھا” ہونے کا گماں ضرور گزرتا ہے۔ وزارت اطلاعات ونشریات سے فارغ ہونے اور سائنس وٹیکنالوجی کی وزارت سنبھالنے کے بعد انہیں خبروں میں ان رہنے کیلئے ہی دراصل انہوں نے چاند نکالنے کی ایسی ترکیب نکالی جس سے رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کو اپنا منصب خطرے میں نظر آیا تو زچ ہوکر بالآخر مفتی منیب الرحمن جیسے ٹھنڈے ٹھار شخص کو بھی فواد چوہدری کو ”قابو” میں رکھنے کیلئے وزیراعظم سے شکایت لگانا پڑی، مگر فواد چوہدری کہاں نچلا بیٹھ سکتے تھے انہوں نے رویت ہلال کمیٹی کو قوم پر بوجھ قرار دیتے ہوئے اس پر اُٹھنے والے کروڑوں سالانہ کے اخراجات کو بچانے کے بیانات داغنا شروع کردئیے۔ تاہم وہ جو پشوری زبان میں ایک بات مشہور ہے جس کا مفہوم ہے کہ مقابلہ بھی کسی ایرے غیرے نتھو خیرے سے نہیں، مفتی منیب کا ”کلہ” بھی اتنا مضبوط ہے کہ گزشتہ سولہ سترہ یا اس سے بھی زیادہ سال سے وہ جس طرح اس منصب پر قابض ہیں تو اس کی بھی کوئی وجہ تو ضرور ہوگی۔ خیر ہمارا آج کا موضوع مفتی منیب نہیں بلکہ فواد چوہدری کے سائنٹفک کارنامے ہیں، جن کی وجہ سے انہوں نے وزارت سائنس وٹیکنالوجی کو بھی لائم لائٹ میں لاکر قابل توجہ بنا دیا ہے اور اس حوالے سے اگر آپ کو یاد ہو تو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے حکومت نے بھنگ کی پیداوار بڑھانے اور اس سے دوائیاں بنانے کے حوالے سے ٹھیکہ دینے کا فیصلہ کیا تو عوامی سطح پر اس کا مذاق اُڑانے کی کوششیں کی گئیں، سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ چل پڑا تھا، اسی بھنگ کو اب مزید کارآمد بنانے کیلئے فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان نے بھنگ کے پودے سے دھاگہ تیار کر لیا ہے، یقینا یہ کارنامہ بھی وزارت سائنس وٹیکنالوجی کی نگرانی میں انجام دیا گیا ہوگا۔ موصوف نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے 50 سے 60 ملین کی ایکسپورٹ ہوگی اور اس سلسلے میں آئندہ سال پانچ لائیسنس جاری کئے جائیں گے، خبر میں مزید تفصیل تو موجود نہیں ہے، تاہم خدشہ ہے کہ کہیں لوگ اس دھاگے سے بنے ہوئے کپڑوں کو دھوتے ہوئے اس سے نشے کا لطف نہ لینے لگیں، خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اور اگر یہ دعویٰ درست ہے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے جبکہ اس خبر نے مجھے لگ بھگ چار دہائیاں پیچھے ضرور پہنچا دیا ہے، جب میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں خدمات انجام دے رہا تھا وہاں وادیٔ زیارت (جہاں قائداعظم نے اپنے آخری ایام گزارے تھے) سے ایک پڑھے لکھے شخص نے اس وقت کے حکمران جنرل ضیاء الحق کو خط لکھ کر وادیٔ زیارت میں پھیلے ہوئے صنوبر کے جنگلات کی جانب متوجہ کرتے ہوئے ان جنگلات سے بھرپور استفادہ کرنے اور ملک کیلئے اربوں کھربوں کا زرمبادلہ کمانے کی درخواست کی، تو ریڈیو پاکستان کے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد سے اس حوالے سے ایک دستاویزی پروگرام بنانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی، میں نے تین دن وہاں رہ کر اپنی تکنیکی ٹیم کیساتھ لاتعداد افراد کے انٹرویوز ریکارڈ کئے۔ مختلف سرکاری محکموں سے اعداد وشمار اکھٹے کئے اور کوئٹہ واپس آکر ایک دستاویزی پروگرام تیار کیا اور محولہ شخص کیساتھ بھی انٹرویو ریکارڈ کرکے ثابت کیا کہ اگر صنوبر کے ان جنگلات کو واقعی بروئے کار لایا جائے تو ہم مشہور زمانہ پرفیوم لیونڈر (Lavendor) کشید کرکے دنیا بھر میں برآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی اور صنوبر کے یہ جنگلات بھی فواد چوہدری جیسے کسی شخص کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ لیونڈر دنیا کے مشہور ترین خوشبوؤں میں سے ایک ہے جسے سب سے پہلے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں بڑے انوکھے طریقے سے لانچ کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ کمپنی نے لیونڈر تیار تو کر لیا تھا مگر اسے عوام سے پہلی بار متعارف کرنے کیلئے کمپنی نے پیرس کے محکمہ موسمیات کیساتھ روابط قائم کر کے آنے والی بارش کے بارے میں پیش گوئی کا انتظار کیا اور جب بارش کے حوالے سے موسمیات والوں نے کمپنی کو اطلاع کر دی تو شنید ہے کہ کمپنی مذکورہ نے چھوٹے طیاروں کے ذریعے نہ جانے کتنے ٹن لیونڈر کو فضا میں بھیج کر گہرے اور گھنے بادلوں میں شامل کرا دیا اور ساتھ ہی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے عوام کو الرٹ کیا گیا کہ بارش کے قطروں کیساتھ ان کی نئی خوشبو لیونڈر کا بھی لطف اُٹھانے کیلئے تیار ہو جائیں اور پھر جیسے ہی بارش برسنے لگی تو پورا پیرس لیونڈر کی خوشبو سے مہک اُٹھا۔ اس کے بعد تو پیرس کے شہری اس نئے پرفیوم کے جیسے دیوانے ہوگئے اور بڑے بڑے جنرل سٹورز پر لوگوں کے جم غفیر لیونڈر خریدنے کیلئے نظر آنے لگے، یہ طریقہ ہوتا ہے کسی پروڈکٹ کی تشہیر کا، بہرحال مطلب صرف اتنا ہے کہ اگر فواد چوہدری کی وزارت بھنگ جیسے پودے سے دھاگہ بنانے میں کامیاب ہوسکتا ہے تو بلوچستان کی وادیٔ زیارت میں پاؤں تلے روندے جانے والے صنوبر کے پودوں کو کیوں نہ لیونڈر کی کشید کیلئے کام میں لاکر بھی ملک کیلئے زرمبادلہ کمایا جاسکے، تاہم اس جانب توجہ صرف اس لئے نہیں جارہی کہ یہ پودا بلوچستان میں اُگتا ہے جہاں کی ترقی کے بارے میں کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔
آمد پہ تیری عطر و چراغ وسبو نہ ہو
اتنا بھی بود وباش کو سادہ نہیں کیا

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج