2 350

جمہوریت، ایک نکتہ نظر

ج تک یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ مسلمانوں اور دنیا کے سارے انسانوں کیلئے کونسا نظام حکومت بہتر ہے۔ اسلام پر دل وجان سے یقین رکھنے والوں کیلئے خلافت سے بڑھ کر کوئی دوسرا نظام حکومت نہیں ہے۔ یہ تاریخ سے بھی ثابت ہے اور قرآن وحدیث میں اس نظام حکومت کے واضح خدوخال موجود ہیں۔ جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے مبارک ادوار سے بھی یہی ثابت ہے۔
قرآن وحدیث اور تاریخ اسلامی میں حضرت داؤداور حضرت سلیمان کی بادشاہتیں بھی گزری ہیں۔ بنی اسرائیل کی درخواست پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت طالوت کو بھی بطور ملک (بادشاہ) بھیجا گیا ہے جس سے یہ نکتہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ گویا اسلام میں نیک سیرت بادشاہت کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ ادوار گزرنے کے بعد دونوں طرزہائے حکومتیں یعنی خلافت اور بادشاہت جب ناکام ہوئیں تو عثمانی خلافت کے زوال کی صورت میں مسلمانوں کے ہاں خلافت ختم ہوئی اور جب مغرب وغیرہ میں بادشاہتیں کرپٹ اور مطلق العنانیت کے سبب ظلم واستبداد کی علامت بن گئیں تب وہاں تبدریج عوامی حکومتیں آئیں اور مغرب کی عوامی حکومتوں کے اثرات مسلمان معاشروں پر بھی پڑنے لگیں اور پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کے ہاں سے ملوکیت اور بادشاہتیں زوال پذیر ہوئیں اور مصر کے آخری بادشاہ کنگ فاروق نے کہا کہ جب میری بادشاہت ختم ہوئی تو اس کے بعد دنیا میں پانچ بادشاہ ہی باقی رہ سکیں گے، چار تاش کے اور ایک برطانیہ کا۔۔ اگرچہ دنیا میں اب بھی بادشاہتیں موجود ہیں لیکن زیادہ برائے نام اور علامتی تبرک اور وہاں کے معاشروں میں ماضی کیساتھ رومانس کے ایک تعلق کیلئے ہیں ورنہ زیادہ تر ملکوں کا نظام خلافت اور ملوکیت کے بعد جمہوریت کے تحت نظام ہائے حکومت کچھ ایسے انداز سے چلنا شروع ہوئے کہ جمہوریت ایک ایسی مقدس گائے بن گئی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں اب جمہوریت کیخلاف کوئی بھی کچھ سننا پسند نہیںکرتا کیونکہ سب ہی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے دورحکومت میں طالبان کی حامی اور امریکہ مخالف متحدہ مجلس عمل اس کیساتھ نظریاتی بعدالمشرقین کے باوجود شامل اقتدار رہی۔
دنیا میں میڈیا اور سرمائے کے زور پر جمہوریت کو اتنا دلکش اور ناگزیر بنایا گیا ہے کہ کٹر مذہبی جماعتیں بھی بالآخر اس کی گرویدہ ہو ہی جاتی ہیں۔ اس میں شک بھی نہیں کہ جمہوریت کا یہ کمال تو دنیا مانتی ہے کہ فلسطین میں حماس جیسی عسکری وجہادی تنظیم بھی سیاسی عمل میں شریک ہو ہی گئی، جمہوریت کا یہی حسن وکمال ہے کہ اس میں مختلف اور مخالف بلکہ متضاد اور بعض معاندانہ اور دشمنانہ نظریات کے حاملین بڑی فراخدلی کیساتھ اس کے دامن عاطفیت میں سمو جاتے ہیں۔ ماضی اور حال میں اس کی متعدد مثالیں اور واقعات موجود ہیں۔ پاکستان میں نواز شریف اور آصف زرداری کی باریاں اور اس وقت ان کی دوسری نسل کے درمیان تال میل اسی جمہوریت کا مظہر ہے۔ یہ صرف جمہوریت کی ہی اعلیٰ ظرفی ہے جو کل کے دشمنوں کو آج کے دوست بنانے میں کمال مہارت رکھتی ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ ایسا کیسے اور کیوں ممکن ہوجاتا ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں خیر وشر کچھ نہیں ہوتا، اس میں ذاتی مفادات اور بعض اوقات ملکی مفادات کے نام پر کٹر مخالفین کیساتھ لوگ شریک ہو کر اپنے بنیادی نظریات کو بھول جاتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اچھے اچھوں کے دین، ایمان، اصول اور عقیدے وغیرہ کو اعتدال کی راہ سکھا دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشروں میں جمہوریت کی سب سے بڑی معاون آزاد میڈیا ہے۔ میڈیا معاشرے میں بدعنوانیوں کیخلاف جہاد کرتا ہے اور یہ جہاد زبانی کلامی عوام کیلئے ہوتا ہے لیکن اصل میں میڈیا آج کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور میڈیا ملٹی نیشنل کمپنیوں، کارپوریشنز اور سرمایہ دار ریاست کے پیسے کے زور پر معجزے دکھاتا ہے۔ اسلئے میڈیا کا جہاد، حقیقت میں اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتا ہے اور اس کا یہ کاروبار جمہوریت ہی کے بل بوتے پر رواں دواں رہ سکتا ہے۔
صدر بش نے افغانستان پر حملے سے پہلے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ”ہم تاریک غاروں میں بھی جمہوریت کی شمع جلائیں گے کیونکہ جمہوریت ایک ایسی شمع ہے جس پر ہر پروانہ گر کر آتا ہے خواہ اس کا نظریاتی پس منظر کچھ بھی ہو” یہاں تک کہ وہ اس شمع کی خاطر اپنے وجود کو ختم کردیتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ مغرب کے بہت سارے فلاسفر نے جمہوریت کو رد کیا ہے، فرانس کے مشہور فلسفی جیکوئپنر نے لکھا کہ ”مغرب کے تمام امراض، مسائل اور مشکلات کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے جمہوریت”۔ افلاطون نے اپنے زمانے میں The republic میں جمہوریت کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے ”جمہوریت حرص میں اضافہ کرتی ہے اور غیر مساویانہ تقسیم دولت اور طاقت کا سبب بنتی ہے”۔
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''