4 241

تبدیلی کا پہلا مرحلہ

قوموں کے زوال پذیر ہونے کی علامات ہوتی ہیں، ان علامتوں میں سب سے بڑی علامت اخلاقی معیار گرنے کی ہے۔ اخلاقیات کے وہ پیمانے جنہیں ہم آفاقی کہہ سکتے ہیں اور جو کرۂ ارض کے تمام انسانوں کے نزدیک قابل تقلید ہوتے ہیں ان میں سچ بولنا، عہد کی پاسداری کرنا، دھوکہ دہی سے گریز، ایمانداری اور دیانتداری وغیرہ مشترک ہیں۔ رنگ نسل، زبان، علاقہ، قومی تخصیص کو بالائے طاق رکھ کر یہ انسان کے فطری اخلاقی معیار ہیں۔ جو قومیں تنزلی کا شکار ہوتی ہیں ان کے افراد میں جھوٹ، بدعہدی، چالاکی، دھوکہ دہی اور بے ایمانی رواج پاجاتی ہیں۔ قوم کے بڑے جب اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو بتدریج یہ گراوٹ نچلی سطح تک سرایت کر جاتی ہے۔ ایسے معاشرے سچ اور جھوٹ کی تمیز بھول جاتے ہیں اور یہاں سادگی اور چالاکی اور دیانتداری اور بے ایمانی کا فرق مٹ جاتا ہے۔ فریب اور دھوکہ دہی جن معاشروں میں عام ہوجائے اور جہاں ایک فرد بھی پورا سچ بولنے والا نہ ملے ان معاشروں نے ہر گزرتے دن کیساتھ تباہی کے گڑھے کی طرف اپنا سفر جاری رکھا ہوتا ہے۔ یہ معاشرے دنیا میں ذلیل وخوار ہوتے ہیں اور ان معاشروں کے افراد کی اقوام عالم کے سامنے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ قوموں کو اس تباہی کا شکار کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو قوم کی ”اشرافیہ” کہلاتے ہیں۔ یہ نام نہاد ”اشرافیہ” کون لوگ ہوتے ہیں۔ حکمران طبقہ جس میں سیاستدان، افسران بالا، جج اور جرنیل سب آجاتے ہیں اور قوم کے امراء پر مشتمل یہ اشرافیہ معاشرے میں جھوٹ، بدتمیزی اور بے ایمانی کو اپنے عمل وکردار سے فروغ دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ ساری قوم ان بری عادات میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
قوموں کے عروج وزوال کی داستان نہایت سادہ ہے۔ ازل سے وہ معاشرے اُٹھتے رہے ہیں جہاں آفاقی اخلاقی اُصولوں کی پیروی کی گئی اور وہ معاشرے ذلیل وخوار ہوتے ہیں جہاں فطری اخلاقی معیارات کو جھٹلایا گیا۔ عروج وزوال کی کہانی انہی فطری اصولوں کے گرد گھومتی ہے۔ جن معاشروں میں اخلاقیات کے اعلیٰ معیار قائم ہوجاتے ہیں وہ معاشی لحاظ سے بھی ترقی کرتے ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ وانصاف کی فراہمی بھی وہاں یقینی ہوجاتی ہے۔ نظام انصاف چونکہ نظام سیاست کے تابع ہوتا ہے لہٰذا انصاف کے معیار قوموں کے مابین مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ہم جس تناظر میں بات کر رہے ہیں وہ عمومی انصاف کی فراہمی ہے جو اس معاشرے کے افراد کیلئے اطمینان کا باعث بنتی ہے۔ معاشی ترقی اور عروج کو بعض لوگ کج فہمی کی بنیاد پر چند واقعات یا تحریکات سے تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ یورپ کی ترقی کی وجہ ”صنعتی انقلاب” قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صنعتی انقلاب کی وجہ یورپی اقوام کے مابین کشمکش تھی۔ بعض افراد جنگوں کو ترقی کا سبب قرار دیتے ہیں اور مثال میں یورپ اور قدیم چین کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب ظاہر ہے اُلجھنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی تبدیلی کا سفر سب سے پہلے شروع ہوتا ہے اور یہی ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہتری اور ترقی کی ابتداء ہے۔ صنعتی انقلاب کا حوالہ دینے والے بھول جاتے ہیں کہ یورپ اپنے تاریک دور سے باہر کیسے نکلا، ان کی عادات کیسے بدلیں، وہ منظم کس طرح ہوئے، علم کا حصول کیسے ممکن ہوا اور پھر ترقی کے دروازے ان پر کس طرح کھلے۔ قوموں کے عروج کے سفر کی ابتداء افراد کی عادات بدلنے سے ہوتی ہے۔ یہ عادات ان فطری اخلاقی معیارات کے مطابق ترتیب پاتی ہیں جن کا ہم نے کالم کے آغاز میں ذکر کیا ہے تب تبدیلی اور ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک قوم میں جھوٹ کا دور دورہ ہو اور بدعہدی اور بے ایمانی پروان چڑھتی رہے اور ترقی کے سفر کا آغاز بھی ہوجائے۔ ایسے معاشرے تباہ نہ بھی ہوں تو جمود کا شکار رہتے ہیں کیونکہ سچ اور جھوٹ، عہد اور بدعہدی، ایمانداری اور بے ایمانی کے مابین ففٹی ففٹی تناسب رہتا ہے اور کشمکش چلتی رہتی ہے۔ ”قوموں کی تعمیر عروج کا پہلا مرحلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ پیشگی شرط پوری ہوگی تو سفر کی کامیاب ابتدا ہوگی ورنہ خرابی مقدر ہے۔ ازل سے لیکر آج تک جتنے ریفارمز آئے ان کی توجہ اول وآخر اس بنیادی نکتے پر مرکوز رہی، مصلح ہمیشہ اخلاق کی درستگی پر زور دیتے ہیں کیونکہ اخلاق کی درستگی کے بغیر آگے بڑھنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل اخلاق سے عاری لوگوں کیساتھ ممکن نہیں ہے۔ اس ضمن میں معاشرے کے بااثر طبقات کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ ”رعایا اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتی ہے” چنانچہ جب معاشرے کے بڑے لوگوں کی عادات بدلتی ہیں تو عوام کی عادات بھی تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ معاشرتی تبدیلی کا سفر اوپر سے شروع ہوتا ہے، ترقی اور تنزلی دونوں معاشرے کے بالادست طبقات کے کردار کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اگر اشرافیہ کا شمار صدق گوئی ہوگا، وہ عہد کی پاسداری کرنے والی، ایماندار اور دھوکہ دہی سے گریز کرنے والی ہوگی تو وہ معاشرہ اوپر اُٹھے گا اور جہاں بدعہد، چالاک، دھوکے باز اور بددیانت افراد پر مشتمل کسی قوم کی نام نہاد اشرافیہ ہوگی تو اس معاشرے نے کیا خاک ترقی کرنی ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''