2 351

جنرل(ر) اسددرانی کا مغالطہ

جنرل اسد درانی آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی، ملٹری اینٹلی جنس کے ڈی جی اور حسب روایت ”ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا” کے مصداق ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عرب اور جرمنی میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔1990سے 1993 تک وہ آئی ایس آئی کی سربراہی کی حساس ذمہ داری نبھاتے رہے۔ خود ان کے بقول ”میں کشمیر کو دیکھتا تھا” کشمیر ان کی ذمہ داریوں کا اہم میدان تھا۔ کشمیر اور پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے یہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا جب کشمیر میں ایک ایسی زوردار مزاحمت چل رہی تھی جس کے بارے میں اس وقت کے گورنر کشمیر جگ موہن نے اپنی کتاب ”مائی فروزن ٹربولینس اِن کشمیر” جس کا ترجمہ ”کشمیر میرا سرد جنم” کیا گیا ہے، میں لکھا ہے کہ حریت پسند کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا چکے تھے مگر یہ میں (جگ موہن) تھا جو کشمیر کو بھارت کیلئے بچا کر واپس لایا۔ جگ موہن کی یہ بات چنداں غلط بھی نہیں تھی کیونکہ مشرقی یورپ اور دیوار برلن گرنے سے متاثر ہوکر کشمیر میں نکلنے والے لاکھوں کے جلوسوں نے معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا تھا اور بھارت کا انتظامی کنٹرول دیوالیہ ہو چکا تھا۔ یہ وہی صورتحال تھی جو مشرقی یورپ، سوویت یونین اور چین میں پیدا ہو چکی تھی، جہاں بڑے عوامی مظاہروں نے بعد میں دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔
بھارت کی طرف سے راہ ورسم پر آمادگی کیساتھ ہی امریکہ نے مسئلہ کشمیر کو بھارت کے زاویۂ نگاہ سے حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا یعنی یہ کہ کنٹرول لائن کو نرم کر کے بین الاقوامی سرحد بنایا جائے۔ کشمیریوں کو دونوں حصوں میں آمد ورفت کی آزادی دی جائے اور پاکستان کو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قناعت کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ امریکہ کی ضرورت ختم ہوتے ہی پاکستان نے خودمختار کشمیر کی تحریک کی روح رواں اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ امان اللہ خان کیساتھ رفتہ رفتہ اپنے تعلقات منقطع کرنا شروع کئے اور ان تعلقات کا نقطہ اختتام11فروری 1992 کو امان اللہ خان کی قیادت میں ہونے والا ”کنٹرول لائن توڑ دو” لانگ مارچ بنا۔ جسے خود آزادکشمیر پولیس اور فرنٹیر کانسٹیبلری نے مقبوضہ کشمیرکی جانب کنٹرول لائن کی طرف بڑھنے سے روک دیا اور کئی افراد اس مڈ بھیڑ میں جاں بحق ہوئے۔ مارچ کے بعد امان اللہ خان نے ایک احتجاجی جلسے میں اس تصادم کی ذمہ داری نام لیکر جنرل اسد درانی پر عائد کی۔ یہی اسد درانی اب ریٹائرمنٹ کے بعد شغلِ تحقیق وتحریر فرما رہے ہیں۔ انہوں نے چند برس قبل را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کیساتھ مل کر ”سپائی کرانیکلز” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوا اور فوج نے بھی اس کتاب کا نوٹس لیا۔ اسد درانی کی انکوائری شروع ہوئی، قومی رازوں کے افشاء کا الزام لگا مگر پھر کیا ہوا خدا ہی جانتا ہے البتہ اس نوٹس اور انکوائری کے بعد جنرل درانی ایک اور کتاب کیساتھ منظر پر اُبھر ے ہیں، ان کی نئی کتاب کا نام ”اونر امنگسٹ سپائز” ہے جس میں اُسامہ بن لادن کا کردار مرکزی ہے۔ ایک اور کتاب کے بعد اسد درانی پھر خبروں کا موضوع ہیں۔ اسی دوران انہوں نے بی بی سی کو ایک طویل انٹرویو دیا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر ان کی مجموعی رائے تو غیرمعمولی نہیں مگر بھارت کے بارے میں وہ ایک مغالطے کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ بھارت اب پاکستان کیلئے خطرہ نہیں رہا۔ پانچ اگست 2019 کے بعد بھارت اپنے اندرونی مسائل میں اُلجھ چکا ہے اور وہ پاکستان کی مشرقی سرحد پر کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم بالاکوٹ جیسی کارروائی ہو سکتی ہے جس کیلئے آپ کو تیار رہنا ہوگا۔ جنرل اسد درانی کا خیال ہے کہ اب پاکستان کو ایران، ترکی اور سعودی عرب جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ جنرل اسد درانی کا یہ کہنا کہ بھارت پاکستان کیلئے خطرہ نہیں رہا بلکہ ترکی، ایران اور سعودی عرب جیسے مسائل نئے چیلنجز اور خطرات ہیں خلاف واقعہ بات ہے۔ پاکستان کیلئے کل کی طرح آج بھی اصل خطرہ بھارت ہے۔ سعودی عرب اور ایران جیسے مسائل اسی مسئلے سے جڑے ہیں۔ سعودی عرب بھارت کے قریب جاتا ہے تو اس کا پاکستان پر اثر پڑنا فطری ہوتا ہے اسی طرح ایران بھارت کی قربت اختیار کرے تو وہ ازخود پاکستان سے دوری اختیار کرتا ہے۔ بھارت اپنے ساتھ دوستی کرنے والوں کو پاکستان کیساتھ فاصلہ رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ بھارت پاکستان کو افغانستان سے گھیر رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اپنا اثر رسوخ بڑھا کر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان خلیج پیدا کرتا ہے۔ بھارت کا یہی بڑا خطرہ پاکستان کیلئے چھوٹے چھوٹے خطرات پیدا کر رہا ہے۔ ”کب کھلا یہ راز تجھ پر انکار سے پہلے کہ انکار کے بعد” کے مصداق جنرل اسد درانی پر یہ حقیقت کب اور کس نے آشکار کی کہ بھارت اب پاکستان کیلئے خطرہ نہیں رہا شاید اس بین الاقوامی ڈونر نے یہ بات ان کے کان میں بتائی ہو جو ان کے شغلِ تحقیق کی سرپرستی کر رہا ہے؟۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی