3 252

پاکستان میں موروثی سیاست کے ماہ وسال

پی ڈی ایم کے ملتان کے جلسے میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو نے سیاست کے میدان میں دبنگ انٹری مار کر موروثی سیاست کے ناقدین کو بحث کیلئے نیاموضوع فراہم کردیا ہے۔ مذکورہ جلسے میں محترمہ آصفہ بھٹو سٹیج پر میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مسلسل جیالوں کا لہو گرماتی رہی۔ ان دو نووارد سیاستدانوں کے درمیان جمیعت علماء اسلام کے بانی محترم مفتی محمود کے صاحبزادے اور ملکی سیاست کے اُتار چڑھاؤ سے واقف کہنہ مشق اور زیرک سیاستدان مولانا فضل الرحمن بھی موجودہ حکومت کیخلاف ان کی مبینہ نالائقی، ناہلی اور بدعنوانی کے نشتر برساتے رہے۔ کورونا وبا کی تیزی سے بڑھتے ہوئے منحوس سایوں سے لاپرواہ مولانا صاحب کا دعویٰ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے تحریک انصاف کی ناجائز حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لیں گے۔ ملکی مفاد کی خاطر اپنے تن من دھن کی بازی لگانے والے مولانا صاحب کو کروڑوں پاکستانیوں سمیت اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں ہے شاید اسی لئے انہوں نے پارٹی کو خاندانی میراث بنانے کیلئے پہلے ہی اپنے بھائی اور بیٹے سمیت خاندان کے متعدد افراد سیاسی میدان میں اُتار دئیے ہیں۔ مولانا کی پشت پر کھڑے روایتی انداز میں چادر اوڑھے قدآور سیاسی شخصیت کے حامل محمود خان اچکزئی بھی گاہے بگاہے اپنی تقریروں میں اپنے والد محترم عبدالصمد خان اچکزئی کی اعلیٰ ظرفی اور سیاسی بصیرت کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں جس نے موصوف کو اپنا سیاسی میدان ورثے میں چھوڑا ہے۔ موروثی سیاست کے اس میدان میں جس طرح مولانا فضل الرحمن کے سیاسی حریف وحلیف اور مشہور عالم دین مولانا سمیع الحق مرحوم کے صاحبزادے مولانا حامدالحق اپنے والد کے سیاسی وارث کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں، بالکل اسی ہی انداز میں فخرافغان خان باچا خان کے سیاسی ورثے کے مالک ولی باغ کے مکین نسل درنسل خان باچا خان کی سیاسی قد، بصیرت، اعلیٰ ظرفی اور انگریزوں کیخلاف معرکے عوام کے سامنے پیش کرکے اپنی سیاسی دکان چمکاتے رہتے ہیں۔ باچاخان اور ولی خان کی سیاسی جدوجہد اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے میں ان نامور اور سیاسی بصیرت کے حامل شخصیات کے کردار پر کسی کو کوئی شک نہیں لیکن اس کے بعد پارٹی کو خاندان کے چند افراد کے ہاتھوں یرغمال بنانا ان پختون قوم پرستوں کیساتھ کھلا مذاق ہے جو خان باچا خان کے نام پر مر مٹنے کو تیار تھے۔ عبدالولی خان کی وفات کے بعد پارٹی کی سربراہی ان کے خاندان کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے ہاتھ میں آگئی، یہاں پر یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا اس پارٹی میں ولی باغ سے باہر کوئی ایسا سیاسی لیڈر نہیں ہے جو اس پارٹی کو شخصیت پرستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول، نظریات اور پارٹی کے منشور کے مطابق چلاکر عوام کی صحیح رہنمائی کرسکے؟ یہ حال صرف عوامی نیشنل پارٹی کا نہیں ہے، ہشت نگر سے ہی سابق گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ کے بھائی اور سابق وزیراعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اپنے فرزند ارجمند اور سیاسی وارث سکندر شیرپاؤ کیساتھ پاکستان تحریک انصاف کیساتھ ایک عرصے تک خیبر پختونخوا میں حکومت کے مزے لوٹ کر اسی حکومت پر برستے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا پاکستانی سیاست صرف اسی سیاسی اجارہ داری کا نام ہے؟ مملکت خداداد میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح کبھی کبھی مجھے بھی بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے قدآور سیاسی شخصیات کو ان نووارد سیاسی رہنماؤں کے پیچھے سٹیج پر کھڑے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سیاسی میدان کے یہ کہنہ مشق کھلاڑی اپنے سیاسی مفاد کیلئے اپنی انا، سیاسی فکر اور تدبر کا خون کیسے کرتے ہیں؟ پوری قوم نے دیکھا کہ کس طرح ملتان کے جلسے میں ملک کے بائیس کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سیاسی اکھاڑے کے دیگر دبنگ کھلاڑیوں کیساتھ سٹیج پر کھڑے اپنے چہرے پر بناوٹی مسکراہٹ لئے ایک بچی کے سیاسی نعروں پر خوش ہوتے عوام کو جوش دلاتے، للکارتے، اپنے سیاسی وارث آصفہ بھٹو کی آواز سے آواز ملا کر عوام کے نعروں کا جواب دیتے رہے۔ سیاسی وفاداری، پارٹی منشور اور آئین اپنی جگہ لیکن پارٹی سے جڑے رہنے کی خاطر اپنے ضمیر اور اصول کا سودا کرنا کوئی اعلیٰ طرفی نہیں ہے۔ مملکت خداداد میں سیاسی قیادت کے فقدان کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر جو بھی سیاسی قیادت ملک کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئی ہے وہ یا تو موروثی ہے یا حادثاتی لیکن بدقسمتی سے دونوں صورتوں میں نقصان بے چارے عوام کو ہی اُٹھانا پڑا ہے۔ جب تک ہم عوام موروثی سیاست کے اس چنگل سے آزاد ہوکر باشعور اور سیاسی تدبر، بلند اخلاق، اعلیٰ اور معیاری سوچ کے حامل پرخلوص قیادت کو سامنے نہیں لیکر آتے ہمارے ساتھ یہی کھیل کھیلا جاتا رہے گا۔ بقول شاعر
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بحیلۂ مذہب، کبھی بنام وطن

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں