2 352

ایل این جی مہنگی کیوں؟

سردی کے موسم میں گیس کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور سردی کے موسم میں گیس کی قلت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں کیلئے گیس درآمد کرنے کے انتظامات کئی مہینے پہلے ہی کر لیے جاتے ہیں۔ اگر پہلے ہی یہ انتظامات نہ کئے جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ بعد میں مہنگے داموں گیس خریدنی پڑے گی اور یہاں بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ ایل این جی کی درآمد کا طریقہ کار تیل کی درآمد سے تھوڑا زیادہ پیچیدہ ہے۔ پہلے گیس کی تقسیم کار کمپنیوں خاص طور پر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ(ایس این جی پی ایل) سے گیس کی طلب کا تخمینہ مانگا جاتا ہے۔ ایس این جی پی ایل ملک کے شمالی صوبوں میں گیس کی فراہمی کی ذمہ دار ہے جہاں شدید سردی کے باعث گیس کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ گیس کے تخمینے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ(پی ایل ایل)کو بھجوائے جاتے ہیں۔ پی ایل ایل ایک سرکاری کمپنی ہے جس کے ذمے ایل این جی کی درآمد کا کام ہے۔ پی ایل ایل کے مطابق اسے عام دنوں میں ایل این جی کا کارگو بک کرنے کیلئے90سے 120دن درکار ہوتے ہیں۔ جب طلب کے تخمینے موصول ہوتے ہیں تو اس حساب سے ایل این جی کا آرڈر بک کردیا جاتا ہے۔
پی ایل ایل نے نومبر 2018 میں 3 کارگو کیلئے بولیاں طلب کیں۔ ان کارگو کو جنوری اور فروری 2019 میں یہاں پہنچنا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بولیاں تاخیر سے طلب کی گئی تھیں اس وجہ سے برینٹ خام تیل کی قیمت کی نسبت یہ14فیصد زیادہ قیمت پر بولیاں لگیں۔ ایل این جی کی قیمت کا تعین عموماً برینٹ خام تیل کی قیمت کی نسبت سے کیا جاتا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ اس بات کے پیش نظر کہ پی ایس او کی جانب سے کیے گئے ایل این جی کے معاہدے میں قیمت کا تعین برینٹ تیل کے13.37فیصد کے حساب سے ہے جو پی ایل ایل کو ملنے والی سستی ترین بولی سے بھی کم ہے۔ پی ایل ایل نے وزارت کو مطلع کیا کہ ایل این جی کے ضمن ایک فیصد کا فرق بھی بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر پی ایس او قطر کیساتھ کئے گئے طویل مدتی معاہدے(جو گزشتہ حکومت نے کئے تھے اور موجودہ حکومت اس پر بہت مہنگا ہونے کے الزامات لگا رہی ہے) کی مدد سے گیس حاصل کرسکے تو اس سے ایک سے سوا کروڑ ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔ یہ تھی تاخیر کرنے کی قیمت، یعنی ان میں برینٹ تیل کی قیمت میں اضافے اور گیس فراہمی کے وقت میں کمی کی وجہ سے اضافہ ہوتا رہا۔ گزشتہ سال پی ایل ایل کو طلب کے تخمینے اپریل کے مہینے میں ہی موصول ہوگئے تھے اور پی ایل ایل نے اس حساب سے سال بھر کی گیس خریداری کا شیڈول بھی تیار کرلیا تھا۔ اس شیڈول میں اکتوبر کے مہینے تک کیلئے 30کارگو شامل تھے جبکہ نومبر اور دسمبر کے مہینے کیلئے بولیاں اگست میں طلب کی گئیں۔ ان بولیوں کے تحت اکتوبر اور نومبر کے مہینوں کیلئے6کارگو اور دسمبر کے مہینے کیلئے4کارگو بک کیے گئے لیکن اس سال کچھ گڑبڑ ہوگئی۔ پی ایل ایل کی ویب سائٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں بولیاں طلب کی گئیں جو ستمبر میں موصول ہونے والی گیس کے حوالے سے تھیں۔ پی ایل ایل کی قسمت اچھی تھی جو انہیں اس کی قیمت برینٹ کی قیمت کے10.88فیصد پر ملی(جبکہ معاہدے کی قیمت13.37فیصد تھی)۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کورونا کی وجہ سے مارکیٹ گراوٹ کا شکار تھی۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگست میں وہی وقت تھا کہ جب معمول کے مطابق سردیوں کے دوران طلب پوری کرنے کے لیے گیس خریداری کی بولیاں طلب کرلینی چاہیے تھیں اور کوشش کرکے ان کم قیمتوں پر5 سالہ مدت کے گیس فراہمی کے معاہدے بھی کرنے چاہیے تھے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دوران(پاکستان سے باہر)دیگر خریداروں کی جانب سے اس کم قیمت پر طویل مدت کے کم ازکم 3 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ یہ سب برینٹ کی قیمت کے10فیصد سے کچھ زیادہ قیمت پر ہی طے پائے ہیں۔ یہ وہ قیمت ہے جو ان دنوں پاکستان کو ملنے والی قیمتوں سے بہت زیادہ کم ہے۔ اس وقت تک ایل این جی مارکیٹ میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ پاکستان کو گیس کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت نے دسمبر میں استعمال ہونے والی گیس کے6کارگو کیلئے3 مہینے تاخیر سے اکتوبر میں بولیاں طلب کیں۔ اس کے بعد تو جیسے مارا ماری شروع ہوگئی۔ بولیاں لگنے کا سلسلہ تو شروع ہوگیا لیکن یہ 16.1سے 19.3فیصد کے درمیان تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایل این جی کی اتنی مہنگی قیمتیں نہیں دیکھی گئیں۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ بدانتظامی کی وجہ سے اس موسمِ سرما میں ایل این جی کی درآمد میں پاکستان کو 20 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہورہا کہ جب موجودہ حکومت گزشتہ حکومت پر قطر سے کیے جانے ایل این جی کی درآمد کے 15سالہ معاہدے پر کرپشن کے الزامات عائد کرنے میں مصروف ہے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس