3 253

باراں کی طرح لطف وکرم عام کئے جا

انصاف کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور جب ہم تحریک انصاف کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو ان تقاضوں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے تاہم جو حقائق سامنے آرہے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہوئے انصاف کے اصولوں پر کہیں کہیں عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ صوبے میں سول ملازمین جو مختلف ڈائریکٹوریٹس اور محکموں میں خدمات انجام دے رہے ہیں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے افراط وتفریط کا شکار دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں کھل کر نہ سہی زیرلب تو شکایت کا سامنے آنا فطری امر ہے، صوبائی سول سرونٹس ایکٹ1973 کے تحت تقریباً 35 ڈائریکٹوریٹ کام کر رہے ہیں لیکن جہاں ان ملازمین کو مراعات کا تعلق ہے تو سب سے اہم یعنی صوبائی دائریکٹوریٹ کے ملازمین، جو اگر دیکھا جائے تو حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، دیگر شعبوں کے ملازمین کے مقابلے میں محرومیت کا شکار ہیں، حالانکہ جو مراعات دوسرے محکموں کے ملازمین کو حاصل ہیں وہ سیکریٹریٹ کیساتھ تعلق رکھنے والے ڈائریکٹوریٹ ملازمین کو اب تک فراہم نہیں کئے گئے حالانکہ یہی وہ ادارہ ہے جو حکومت کے احکامات کو نافذ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے،یعنی حکومت کے دیگر ادارے تو پالیسیاں بنا لیتے ہیں مگر ان کو قوت نافذہ فراہم کرنے میں ڈائریکٹوریٹ کے ملازمین اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان میں نہایت کوالیفائیڈ اور تجربہ کار اور مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوتے ہیں جو حکومتی پالیسیوں کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے ہیں اور ان کی مدد کے بغیر حکومتی پالیسیوں پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد میں مشکلات پیش آسکتی ہیں، گویا یہ ہی وہ افرادی قوت ہے جو صوبے کی ترقی اور حکومت وقت کی ہدایات کو بہترین انداز میں نافذ کر کے حکومتوں کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، ایک لحاظ سے یہ وہ خاموش سپاہی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کے بل پر برسراقتدار حکومت کیلئے نیک نامی کماتے ہیں، اس حوالے سے جو معلومات ہم تک پہنچائی گئی ہیں ان کے مطابق سیکرٹریٹ آفیسرز ایسوسی ایشن اور پی سی ایس آفیسرز ایسوسی ایشن جن میں گریڈ17اور اوپر کے ملازمین شامل ہیں کو ایگزیکٹو الائونس کے نام پر ایک اعشاریہ 5فیصد اضافی تنخواہ(بنیادی تنخواہ کے حساب سے) دی جاتی ہے اسی طرح صوبے میں کام کرنے والے تقریباً 8ہزار ڈاکٹروں کو بھی ان کی بنیادی تنخواہ پر ہی مراعات دی جارہی ہیں جسے ہیلتھ پروفیشنل الائونس کا نام دیا گیا ہے، ان کی دیکھا دیکھی صوبے میں کام کرنے والے انجینئرز نے بھی احتجاج کر کے یہی ایک اعشاریہ5فیصد الائونس حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ پولیس آفیسرز نے بھی اپنے لئے یہ مراعات طلب کیں تو پولیس سروس کے ایگزیکٹو آفیسرز کو ایگزیکٹو الائونس کے نام پر ان مراعات کا حقدار قرار دیا گیا، ازاں بعد پلاننگ آفیسرز نے بھی اپنی محرومیت کا رونا رویا تو ان کی بھی سن لی گئی اور انہیں بھی بنیادی تنخواہ پر ایک اعشاریہ5فیصد اضافی الائونس کا حقدارقرار دیا گیا، دستیاب معلومات کے مطابق یہ اضافی الائونس صوبے کے کم وبیش 12ہزار ملازمین کو دیا جاتا ہے مگر اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ آفیسرزایسوسی ایشن کے نہایت محدود تعداد کے ملازمین اب تک اس سہولت سے محروم چلے آرہے ہیں، اس ضمن میں محولہ ایسوسی ایشن کے صدر امین خان سے ہم نے ساری صورتحال کی تصدیق کیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیا کہ ڈائریکٹوریٹ سے تعلق رکھنے والے افسروں کو جو صوبے کی ترقی کیلئے گراس روٹ پر نہایت جانفشانی اور محنت سے کام کرتے ہیں اور حکومتی پالیسیوں کو عملی صورت دینے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں، تاہم یہ تمام افسران مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ اگر سیکریٹریٹ کے افسران ہیلتھ پروفیشنلزم یعنی ڈاکٹر صاحبان، انجینئرنگ کے شعبے کے افسران، پولیس آفیسرز اور پلاننگ آفیسرز کو جن کی تعداد 12ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے یہ الائونس دیا جاسکتا ہے تو ڈائریکٹوریٹ کے تقریباً ڈیڑھ دوہزار ملازمین کیساتھ سوتیلی ماں کا جیسارویہ کیوں اختیار کیاجارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومتی روئیے سے ان افسران میں مایوسی پھیل رہی ہے اور وہ دل شکستگی کا شکار ہورہے ہیں حالانکہ اتنی کم تعداد میں ملازمین کو 1.5فیصد الاؤنس دینے پر قومی خزانے پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑے گا’ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹوریٹ ملازمین میں پھیلنے والی مایوسی اور بے چینی انہیں احتجاج پر مجبور کر سکتی ہے اس لئے وزیراعلیٰ ان کم تعداد ملازمین کے مسائل پر ہمدردانہ غور کریں تاکہ یہ پہلے سے بھی زیادہ دلجمعی کیساتھ ملک وقوم کی خدمت جاری رکھیں کیونکہ مہنگائی ان پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی بھی داد رسی کی جائے۔ اُمید ہے وزیراعلیٰ اس مسئلے پر ہمدردانہ غور کریں گے اور ڈیڑھ دوہزار ملازمین کو انصاف دلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
باراں کی طرح لطف وکرم عام کئے جا
آیا ہے جو دنیا میں تو کچھ کام کئے جا

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟