1 311

بھارت ایک جنونی شدت پسند ملک

برصغیر تقسیم ہوا، پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملک بنے اور بھارت سے لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے پاکستان آگئے بلکہ انہیں پاکستان کی طرف دھکیلا گیا، پھر بھی کروڑوں مسلمان بھارت میں ہی رہ گئے۔ ہندوستان پر چونکہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی اس لئے ان کی یادگاریں شہر شہر پھیلی ہوئی تھیں، بے شمار مقابر، باغات دوسری عمارات کیساتھ ساتھ بے شمار خوبصورت اور وسیع وعریض مساجد بھی یہاں موجود تھیں اور ان کی پرشکوہ عمارات اس بات کا ثبوت تھیں کہ انہیں بہت شوق سے بنوایا گیا تھا اور ظاہر ہے کہ تقسیم کے بعد یہ بھارت سرکار کی ذمہ داری تھی کہ ان کی حفاظت کرتی لیکن ہوا یہ کہ بھارت سرکار نے نہ تو اپنے ہاں رہ جانے والے مسلمانوں کی حفاظت کی نہ ان کے مذہبی مقامات کی بلکہ اِن سے متعلق یادگاروں کو اپنے نشانے پر لے لیا۔آر ایس ایس اور بجرنگ دل اور خودحکمران جماعت بی جے پی وہ متعصب جماعتیں ہیں جو بلاخوف وخطر بلکہ سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کیخلاف برسرپیکار رہتی ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ کا ایک اندوہناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب6دسمبر1992 کو ویشوا ہندو پریشد، آر ایس ایس، بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دوسری جماعتوں کے ہندو غنڈوں نے ایودھیا کی قدیم مسجد، بابری مسجد پر حملہ کیا اور اس کے گنبد کو شہید کر دیا، اس مسجد کو1528 میں شہنشاہ بابر کے ایک جرنیل میر باقی نے بابر کی ہدایات پر بنوایا تھا۔ تغلق اندازِ تعمیر کا شاہکار یہ تقریباً پانچ سوسال پرانی مسجد مسلمانوں کی قدیم مساجد میں سے تھی۔ انیسوی صدی میں یعنی مسجد کی تعمیر کے تین سوسال بعد ہندؤوں نے یہ اعتراض اُٹھایا کہ مسجد رام کی جنم بھومی پر تعمیر کی گئی ہے، پھر1949 میں ہندؤوں نے رات کے اندھیرے میں کچھ بت لاکر مسجد میں رکھ دئیے اور بھارت سرکار نے فسادات کے خوف کی آڑ لیکر مسجد بند کر دی۔ 1984 میں ویشوا ہندو پریشد نے دوبارہ ایک مہم شروع کی، لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور ایک رتھ یاترا کا اعلان کیا جسے اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا اور 1985 میں پھر یہ مہم شروع کی گئی جس کے نتیجے میں 1986 میں ہندؤوں کو محدود پیمانے پر عبادت کی اجازت دیدی گئی۔ بھارت میں ایک رواج ہے کہ انتخابات سے قبل ہندؤوں کو خوش کرنے کیلئے اور ان کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جو اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کیخلاف ہوں اور خود کو سیکولر کہلانے والا یہ شدت پسند معاشرہ اپنے سیاستدانوں کو ان اقدامات کا انعام بھی دیتا رہتا ہے اور اس لئے اس آزمودہ نسخے کو بار بار آزمایا جاتا ہے یعنی وعدے بھی کئے جاتے ہیں اور عملی اقدامات بھی چنانچہ1989 میں انتخابات سے قبل ہندؤوں کو مزید عبادات کی بھی اجازت دیدی گئی اور ساتھ ہی ایل کے ایڈوانی نے دس ہزار کلومیٹر کی رتھ یاترا شروع کرنے کا اعلان کیا اس کیساتھ آر ایس ایس ویشوا ہندو پریشد اور بی جے پی کے علاوہ بھی ہزاروں شدت پسند ہندو تھے جنہوں نے 6دسمبر 1992 کو مسجد پر دھاوا بول دیا اور اس کے گنبد پر چڑھ کر اسے شہید کر دیا اس مہم میں کوئی ہندو دوسرے سے پیچھے نہ تھا۔ اس کارروائی کے بعد جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو پھر اُن کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ مسلم ہندو فسادات پھوٹ پڑے اور دوہزار سے زیادہ جانیں گئیں جن میں ہمیشہ کی طرح زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی یعنی مسجد بھی مسلمانوں کی ڈھا دی گئی اور جانیں بھی انہی کی گئیں، اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں یہاں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہی متاثرین میں شامل تھی۔ معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کیا گیا جس نے399نشستوں کے بعد سولہ سال بعد اپنے فیصلے میں لکھا کہ ”مسجد پر حملہ نہ تو بغیر منصوبہ بندی کے تھا اور نہ ہی اچانک” یہ فیصلہ 2009 میں آیا۔ مسجد پر حملے کے ردعمل کے طور پر پاکستان بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا لیکن باقی دنیا نے وہ ردعمل نہیں دکھایا جو پاکستان یا کسی دوسرے اسلامی ملک کی کسی اقلیت کی عبادت گاہ پر حملہ ہونے کی صورت میں سامنے آتا۔ بہرحال یہ معاملہ چلتا رہا دونوں فریق عدالت بھی جاتے رہے لیکن ہندو اپنی اکثریت ہونے کا فائدہ اُٹھاتی رہی اور آخری فیصلہ بھی اس کے حق میں ہی دیا گیا۔9نومبر2019 کو بھارت کی سپریم کورٹ نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے2.77ایکڑ کی اس مسجد کو ان کے حوالے کر دیا کہ وہ یہاں رام جنم استھان مندر تعمیر کر سکتے ہیں اور اس کے بدلے مسلمانوں کو کسی اور جگہ مسجد کی تعمیر کیلئے پانچ ایکڑ زمین دیدی جائے گی اور یوں ایک تاریخی مسجد جو پانچ سو سال سے زیادہ تک مسلمانوں کی عبادت گاہ تھی اسے ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا، ایک ایسی وجہ کی بنا پر جس کی صحت کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بھارت دراصل ایک جنونی شدت پسند ملک ہے اور اس بات کا نوٹس پوری دنیا کو لینا چاہئے اور خاص کر مسلمان ممالک جو بڑے تحمل سے بھارت کے روئیے کو برداشت کر رہے ہیں انہیں بھی بھارت کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ بابری مسجد جیسے واقعات آئندہ جنم نہ لے سکیں۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام