5 252

ضم اضلاع، مسائل اور امکانات

ہمارے ایک قاری اور دوست اکرام اللہ نے ایک خط واٹس ایپ کیا ہے، خود بھی پڑھے لکھے ہیں اور سماج کی نبض پر ہاتھ بھی رکھتے ہیں۔ انہی کے خط کو ترمیم واضافے کیساتھ قارئین کی نذر کرتے ہیں اور صاحبان اقتدار سے اس مسئلے پر تدبر کی توقع رکھتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت ضم اضلاع کی ترقی میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے، گزشتہ دنوں مہمند ضلع میں کیڈٹ کالج کے افتتاح سے تعلیم کے شعبے میں ایک نئی قندیل روشن ہوگی جو ضم شدہ اضلاع کے نوجوانوں کیلئے روشن مستقبل کی نوید لیکر آئے گی۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ سالہا سال سے تعلیمی لحاظ سے بنجر ان علاقوں میں تعلیم کے فروغ کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے۔ کالجوں کو اپ گریڈ کیا جائے اور خاص طور ٹیکنیکل ایجوکیشن کیلئے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان علاقوں میں خواتین تعلیم کے شعبے میں کافی پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس لئے خواتین کی تعلیم پر بھی بھرپور اور خصوصی انداز میں فوکس کیا جانا بہت ضروری ہے۔ تعلیم ہی کسی سماج کی ترقی کا اہم ستون ہے اور تعلیم ہی کسی نسل کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ضم شدہ اضلاع میں ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی سرگرمیوں پر کام کرنا ہوگا تاکہ محرومیوں کا شکار یہ علاقہ آنے والے دنوں میں عزت اور وقار کیساتھ جدید دنیا کیساتھ قدم ملا کرچل سکے۔ اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ قبائلی عوام قدرت کی بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ ان کے عزم وحوصلے کو تو پوری دنیا مانتی ہے، ماضی قریب میں یہاں کے لوگوں نے جن مصائب کا سامنا کیا ہے اس سے بھی ہر کوئی واقف ہے۔ اب وقت ہے کہ ان کے تمام تر مسائل حل کئے جائیں اور ان کی زندگیوں میں بھی وہ تمام شہری سہولتیں میسر ہوں جن سے پاکستان کے دوسرے شہری مستفید ہورہے ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ ضم اضلاع کے عوام اگرچہ ملک کے دیگر عوام کی طرح آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں لیکن مذکورہ اضلاع کے عوام کو حقیقی آزادی ایف سی آر کے خاتمے کے بعد ملی ہے۔ ایف سی آر آزادی سے قبل بھی یہاں نافذالعمل تھا جس کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔ اس نظام میں خاصہ دار، لیویز اسکاؤٹ، ایف سی اور فرنٹیر کانسٹیبلری کے ذمہ قانون نافذ کرنا اور بارڈر مینجمنٹ کی ذمہ داری تھی جو ایک مکمل نظام نہ ہونے کی وجہ سے صحیح طور پر پوری نہیں کی جا رہی تھی۔ یہی وجہ تھی حکومتی سطح پر اس دقیانوسی نظام کو ختم کرنے کا سوچا گیا اور اس کیلئے ایک لائحہ عمل مرتب کیا گیا جس پر رفتہ رفتہ عمل درآمد جاری ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فاٹا بل2017ء میں فاٹا عدالتوں کو رسائی دینے کیلئے پیش کیا گیا تاکہ وہاں کریمینل جسٹس سسٹم متعارف کیا جاسکے، تاہم یہ خواب تب ہی صحیح معنوں میں پورا ہوگا جب یہاں عدالتیں پوری طرح فعال کی جائیں۔ ظاہر ہے ایک نیا سیٹ اپ بنانے میں ضرور وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح پولیس کو بھی اپنی مکمل رٹ قائم کرنے کیلئے تمام وسائل مہیا کرنے کی اشد ضرورت رہے گی کیونکہ وسائل نہ ہونے کے باعث پولیس کو مشکلات آنے کی اطلاعات ہیں۔ فاٹا یوں بھی بندوبستی علاقوں کی نسبت زیادہ پیچیدہ علاقہ ہے سو یہاں لاء اینڈ آرڈر قائم کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ جب تک پولیس کو فاٹا میں مکمل انفراسٹرکچر مہیا نہیں کیا جاتا تب تک بہترین نتائج کی توقع نہ ہی کی جائے تو بہتر ہوگا۔ اب چونکہ فاٹا کے عوام کو حقیقی آزادی مل گئی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں دیگر شہریوں کے برابر تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا انٹرنیٹ تھری جی اور فور جی کی بدولت گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ضم اضلاع اب بھی اس عالمی گاؤں سے باہر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صرف باجوڑ کے کچھ علاقوں میں 3G اور 4G کی سہولت موجود ہے باقی تمام ضم اضلاع اس سہولت سے محروم ہیں۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ یہاں پر موبائل اور انٹرنیٹ کی سروسز فراہم کی جائیں اور آئی ٹی کے شعبے میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت نے ان علاقوں کیلئے اربوں کے فنڈز مختص کئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ فنڈز اس انداز سے خرچ ہوں کہ یہاں کے عوام کو تبدیلی کا احساس ہو سکے، جس کیلئے چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہئے تاکہ حق بہ حقدار رسید والا معاملہ دکھائی دے سکے۔ بلدیاتی نظام کسی بھی سوسائٹی کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے، عوامی نمائندے گراس روٹ لیول پر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انفراسٹرکچر بتدریج اپنی تکمیلی صورت اختیار کرتا جاتا ہے۔ ضم شدہ اضلاع بھی اس بلدیاتی نظام کا تقاضا کرتے ہیں، بلدیاتی انتخابات کا دائرہ ان علاقوں تک بڑھاکر ایک جاندار میکنزم بنایا جاسکتا ہے۔ عوام خود ضرورت کے مطابق اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرسکتے ہیں، اس کیلئے تمام ضروری اقدامات اور حلقہ بندیاں کرکے ان علاقوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔ جس سے ایک طرف سیاسی لیڈرشپ اُبھر آئے گی تو دوسری طرف عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''